میرے ماموں کی ایک بیٹی ہے جس کا نام زار ہ ہے ۔ ماموں زارہ کی شادی کرنے کے لیے بے تاب تھے ۔ وہ اس لیے کیو نکہ زارہ کی حرکتیں اچھی نہیں تھی ۔ زارہ ہر کسی لڑکے کے ساتھ دوستی کر لیتی تھی ۔ ایک دن زارہ سی کے ساتھ باہر لے گی ماموں نے اسے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا ۔ اس دن سے ماموں نے یہ فیصلہ کر لیا کہ زارہ کی جلد سے جلد شادی کر دی جائے ۔ کچھ دن کے بعد زارہ کی شادی کی تاریخ رکھ دی گئی ۔
ماموں نے ہم سب کو دعوت دی۔ویسے بھی ماموں کی ایک ہی بیٹی تھی اس لیے ماموں نے اس کی شادی دھوم دھام سے کرنی تھی۔زارہ کی میرے ساتھ بھی اچھی خاصی دوستی تھی لیکن رے بھی تھی لیکن میں زارہ کی شادی میں نہیں جاسکتا کیونکہ میرے میٹرک کے امتحانات آچکے تھے ۔ اس لئے میں نے شادی میں جانے سے کارکرنات اور میں نے گھر والوں سے یہ بہانہ کیا کہ میں دادی کے پاس رہوں گا کیونکہ دادی کی بھی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی تھی ۔ اس لیے نہ تو دادی شادی میں جاسکتی تھی اور
نہ ہی ہیں ۔ بڑھاپے کی وجہ سے دادی ہر وقت بیڈ پر لیٹی رہتی تھی ۔ میرے بڑے بھائی کراچی میں جوب کرتے تھے ۔ شادی کے لیے بھائی کو بھی چھٹی نہ مل سکی اور انہوں نے بھائی ہے ہم دیا اور کہا کہ میرے بغیر تم بھی وہاں نہ بھی گھر کا جانا ۔ اب میں دادی اور میری بھابھی گھر میں موجود تھے باقی سب گھر والے زارہ کی شادی میں جاچکے تھے ۔ میری اپنی بھابھی کے ساتھ
والوں نے پوری کر دی تھی ۔ کافی زیادہ بنتی تھی وہ میرے ساتھ ہر بات شیئر کر لیتی تھی ۔ میں بھی اپنی بھابھی کا بہت زیادہ احترام کرتا تھا ۔ میرے بھائی 30 سال کے تھے اور میری بھابھی کی عمر 22 سال تھی ۔ خاندان زبردستی میرے بھائی حالا نکہ ان دونوں میں عمر کا بہت زیادہ فرق تھا ۔ مجھے اکثر ایسے لگتا تھا جیسے بھا بھی بھائی کے ساتھ خوش نہیں رہتی۔اور پھر
ر بھی پہلے توں کی ایک دن میراشق بالکل درست درست نکلا ۔ شام کو جب بھابھی رات کا کھانا دینے کے لئے میرے کمرے میں آئی تو میں نے بھابھی سے پو چھابھا بھی آپ مجھے ہر وقت اداس اور پریشان لگتی ہیں ٹھیک ہے بات ان لیکن میرے اصرار کرنے پر ۔ بھا بھی مجھے بتانے لگی ۔ وہ مجھے کہنے لگی کہ میں صرف تمہارے بھائی کی وجہ سے پریشان ہوں ۔ تمہارا بھائی
جب بھی گھر آتا ہے وہ نشے کی حالت میں گھر آتا ہے۔اسے کچھ پت نہیں ہوتا کہ وہ کیا کر رہا ہے ہر رات وہ میرے ساتھ بہت براسلوک کرتا ہے ۔ تین گھنٹے تک مجھے مارتا پیٹتا ہے ۔ وہ میری کوئی بات نہیں سنتا اور مسلسل مجھے اذیت پہنچاتارہتا ہے ۔ – بھا بھی آنکھوں میں سے آنسو نکلنے لگے ۔ میں نے بھابھی سے پوچھا کہ خواہش ضرور ہوتی ہے لیکن زبردستی اور اس طرح اذیت سے ظلم بھا بھی یہ تو ہر عورت کی خواہش ہوتی ہے ۔۔۔ بھا بھی کہنے لگی کہ
کرنا ۔ اور بھلاتنی دیر کون ذلیل کرتا ہے ؟ میرار درد کے براحال ہو جاتا ہے ۔ بھائی رورہی ۔ تھی لیکن میں بھابھی کی باتیں سن کر بہت خاش ہو رہا تھا ۔ میرادل چاہ رہا تھا کہ میں بھابھی کو پیار کروں ۔ میری بھائی بہت ہی زیادہ خوبصورت تھی ۔ میرے دل و دماغ میں آج سے پہلے کبھی ان کے بارے میں کوئی غلط خیال نہیں آیا ۔ لیکن آج میر ادماغ کچھ اور ہی سوچ رہا تھا ۔ مجھے خود پر قابو پانامشکل ہورہا تھا ۔ اس سے پہلے بھی میرے ساتھ۔ایسا نہیں ہوا تھا ۔ پھر اس سے ے ۔
بھی میں نے اپنے جذبات کو قابو میں رکھا اور بھابھی سے کہا کہ آپ میر ابستر لگادیں مجھے نیند آرہی ہے میں سوناچاہتاہوں ۔ میرے دل میں بار بار برے خیال آرہے تھے ۔ مجھے ڈر تھا کہ کہیں میں بھابھی کے ساتھ کچھ غلط نہ ۔ کر ۔ دو ۔ ابھی یہ میرے دل میں خیال _ آہی رہے تھے کہ میری بھا بھی مجھ سے کہنے لگی مجھے اکیلے ڈر ۔ لگتا ہے کیا تم میرے کمرے میں سو سکتے ہو میں نے بھابھی سے کہا کہ اگر دادی نے دیکھ لیا تو کیا ہو گا ؟؟ بھا بھی کہنے لگی تم دادی کی فکرمت
کرو ۔ دادی ایک دفعہ سو جاۓ تو صبح فجر سے پہلے نہیں اٹھتی ۔ اور میں صبح جلدی اٹھ کر واپس اپنے کمرے میں چلی جاؤں گی ۔ تم مجھے یہاں اپنے کمرے میں سونے دو ۔۔ مجھے بہت ڈر لگتا ہے ۔ میں نے بھی ۔ منہ سے ہاں کا اشارہ کر دیا بھابھی اپنی کچھ چیزیں اٹھا کر میرے کمرے میں لے آئیں اور میرے کمرے میں سونے لگی ۔ میرے ذہن میں بار بار یہی خیال آرہا تھا کہ بھابھی میرے کمرے میں سونے کیوں آئی ہے ؟
اس سے پہلے تو بھی میرے کمرے میں نہیں سوائی ۔ مجھے بھابھی کے ارادے اچھے نہیں لگ رہے تھے ۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا ۔ کہ بھا بھی رات کو غلط قدم نہ اٹھاے میں نے اپنا بستر اٹھایا اور دوسرے کمرے میں سو گیا ۔