حکیم عبدالمجید اپنے علاقے کے ایک مشہور حکیم تھے اولاد نہ ہونے , کے باوجود بھی وہ اپنی بیوی کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی گزار رہے تھے ۔ ایک دن حکیم صاحب کسی کا علاج کر کے گھر واپس آ رہے تھے کہ انہوں نے جھاڑیوں کے پیچھے سے ایک بچے کی رونے کی آواز سنی ۔ حکیم صاحب بھاگتے ہوئے جھاڑیوں کے پاس گئے تو وہاں دیکھا کہ ۔
ایک نومولود بچی کپڑوں میں لپٹی ہوئی پڑی تھی ۔ حکیم صاحب بچی کو گھر لے آۓ اور خدا کا شکر ادا کیا کہ کسی درندے نے بچی کو نقصاننہیں پہنچایا ۔ حکیم صاحب کی بیوی بچی کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی اور انہوں نے اپنی اولاد کی طرح بچی کی پرورش شروع کر دی ۔ دو سال کے بعد حکیم کے گاؤں میں ایک بیماری پھیلنے لگی جس سے کئی لوگوں کی اموات ہو گئیں اس بیاری کی لہر سے بچے سب سے زیادہ متاثر ہوۓ حکیم اور اس کی بیوی نے فیصلہ کیا کہ بچی کی خاطر ہم اپنا علاقہ بدل دیں گے ۔ پھر حکیم اپنی بیوی کو ساتھ لے کر ایک پہاڑی علاقے کی طرف روانہ ہوا ۔ اس علاقے کے لوگوں کو جب اس بات کا پتہچلا کہ ہمارے علاقے میں ایک نیا اور ماہر حکیم آیا ہے تو وہ بہت خوش ہوۓ کہ ہمیں علاج کے لیے کسی دوسرے علاقے میں جانے کی ا ضرورت نہیں ہو گی ۔ ایک دن حکیم صاحب نے دیکھا کہ چند لوگ ایک لڑکی کو رنگین چار پائی پر اٹھا کر لے جا رہے تھے اور لڑکی بہت رو رہی تھی ،
حکیم نے پوچھا کہ یہ لوگ لڑکی کو کہاں لے کر جارہے ہیں ۔ ایک آدمی نے حکیم صاحب کو بتایا کہ یہ لڑکی پیر حاکم علی کے پاس جا رہی ہے ، مرشد کی ان کے گھر پر نظر کرم ہوئی اور مر شدنے اپنی دستار ان کے دروازے پر بھیج دی ۔ حکیم آدمی کی اس بات سے بڑا حیران ہوا اور کہا کہ یہ کیسی رسم ہے کہ دستار کے بدلے لڑ کی پیر کو دے دی ۔ آدمی نے کہا کہ یہ ہمارے علاقے میں ایک رسم پائی جاتی ہے کہ پیر صاحب کو جو بھی لڑکی پسند آجاۓ تو وہ اپنے سر سے اپنی پگڑی اتار کر اپنے مریدوں کو دے دیتے ہیں اور مرید ڈھول باجوں کے ساتھ اس پڑی کو لے کر لڑکی کے گھر روانہ ہو جاتے ہیں ۔ لڑکی کے والدین جب پیر صاحب کی پگڑی کو دیکھتے ہیں تو احترام سے اس کو چوم لیتے ہیں اور اپنی خوش نصیبی سمجھتے ہیں کہ پیر کی عزت ان کے در پر آئی ہے اوراپنی بیٹی کو مریدوں کے ساتھ بھیج دیتے ہیں ۔ حکیم صاحب نے کہا کہ یہ تو ایک جاہلانہ رسم ہے جس کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ آدمی نے حکیم سے کہا کہ زبان سنجال کر بات کرو آپ اس علاقے میں نئے ہیں اس لئے میں آپ سے نرمی برت رہا ہوں ، ہمارے علاقے کے ایک معلم نے پیر صاحب کے خلاف بولا تھا
تو مریدوں نے اس کا ایک ہاتھ اور ٹانگ کاٹ ڈالی تھی ۔ حکیم آدمی کی یہ بات سن کر خاموش ہو گیا اور واپس گھر کی طرف روانہ ہوا ۔ حکیم صاحب نے اپنی بیوی کو یہبات بتائی تو اس کی بیوی بہت حیران ہوئی اس نے حکیم کو مشورہ دیا کہ ہم اس علاقے میں نئے آۓ ہیں اس لیے آپ کو اس معاملے میں بولنے کی ضرورت نہیں ہے ۔ وقت اتنی تیزی کے ساتھ گزرا کے پتہ بھی نہیں چلاء حکیم کی بیٹی جس کا نام مریم تھا جب جوان ہوئی تو اسے گاؤں کی یہ رسم بہت فضول لگی اور اس نے گاؤں کی عورتوں کو قائل کرنا شروع کر دیا کہ دین اسلام میں اس طرح کی فضول رسموں کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ ہر مہینے کی پہلی تاریخ کو گاؤں والوںکے لئے ضروری تھا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ پیر صاحب کے آستانے پر حاضری ضرور دیں ، حکیم صاحب نے جب مریم سے کہا کہ ہم بھی پیر صاحب کے آستانے پر حاضری دینے جائیں گے تو مریم نے انکار کر دیا ۔ حکیم نے اپنی بیٹی کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کہا کہ اگر مریدوں کے ذریعے پیر صاحب کو اس بات کا پتہ چل گیا تو تجھے نقصان پہنچا سکتے ہیں ۔
اس لئے ہماری خاطر وہاں چلی جاؤ ۔ مریم نے جب اپنے والد کو مجبور پایا تو ان کے ساتھ چلی گئی ۔ سب لوگ پیر صاحب کی قدم بوسیکر رہے تھے کہ اچانک پیر حاکم علی کی نظر مریم پر پڑ گئی ۔ پیر صاحب مریم کو دیکھتے ہی اس کا دیوانہ ہو گیا ۔ ان کی روانگی کے بعد پیر صاحب نے اپنے سر سے دستار اتاری اور اپنے مریدوں سے کہا کہ حکیم کے گھر روانہ ہو جاؤ ۔ مرید پیر صاحب کی دستار کو لیے حکیم کے گھر روانہ ہوۓ حکیم صاحب گھر پر موجود نہیں تھے , مریم اپنے گھر میں بیٹھی تھی کہ اچانک اسے باہر سے ڈھول کی تھاپ سنائی تھی ۔ پانچ مرید ڈھول کی تھاپ پر رقص کرتے ہوۓ حکیم کے دروازے پر رک گئے مریم ,کی ماں نے پوچھا کہ دروازے پر کون ہے اور کیا چاہتے ہو تو مریدوں نے کہا کہ ہم پیر حاکم علی کے آستانے سے آۓ ہیں آپ کو مبارک ہو ۔ پیر صاحب کی عزت آپ کے دروازے پر آئی ہے ۔
حکیم صاحب کی بیوی نے جب یہ سنا تو اس کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی مریم نے جب اپنی ماں کو پریشان دیکھا تو دروازے کے باہر آئی اور غصے میں آکر پیر صاحب کی دستار کو گندی نالی میں پھینک دیا اور مریدوں سے کہا کہ تمہارے پیر کی دستار کی اصل جگہ یہی ہے ۔ مریدوں نے جب مریم کی اس حرکت کو دیکھا تو طیش میں آگئے اور زبردستی مریم کو اٹھا کر پیر صاحب کے آستانے پر لے گئے ۔ انہوں نے لڑکی کو پیر صاحب کے سامنے پھینکتے ہوۓ سارا واقعہ بتادیا ۔ پھر پیر صاحب نے مریدوں سے کہا کہ تم چلے جاؤ اور اب کمرے میں داخل ہونے کی کسی کو بھی اجازت نہیں ہے ۔ پیر صاحب نے مریم کے بال چہرے سے ہٹاتے ہوۓ کہا کہ تم تو غصے میں بھی بہت پیاری لگتی ہو تجھے کس بات کا قصہ ہے تجھے تو خوش ہو نا چاہیے کہ تم مجھے پسند آگئی ہو ۔ پھر جیسے ہی پیر مریم سے زبردستی کرنے لگا اور لپٹنے کی کوشش کی تو باہر سے آواز آئی ، بد بخت انسان اب تیری بر مادی کا وقت شروع ہو چکا ہے تو ہوس میں اتنا اندھا ہو چکا ہے
کہ تجھے اپنے خون کی پہچان ہی نہیں رہی ۔ پیر صاحب نے دروازہ کھولا تو باہر وہی معلم کھڑا تھا جس کو پیر نے معزور کر دیا تھا ۔ معلم نے کہا کہ مریم تیری اولاد ہے ، پیر کی بیوی نے اپنے شوہر کے خلاف آواز بلند کی تھی ۔ ابھی مریم اس کی گود میں تھی کہ پیر نے بیوی کے قتل کا حکم دے دیا تھاد مریم کی ماں اسے گود میں لیے بھاگ رہی تھی اور مرید مخنجر لئے اس کے پیچھے پڑے ہوئے تھے ۔ اس نے مریم کو جھاڑیوں کے پیچھے رکھ کر ندی میں ڈوب کر اپنی جان دے دی ۔ حکیم صاحب نے مریم کو جب دیکھا تواپنے گھر لے آیا ۔ پیر صاحب نے جب یہ سنا تو شرم کے مارے آستانے سے بھاگ گیا ۔ مریدوں نے اپنے پیر کو بہت تلاش کیا مگر وہ نہ ملا ۔ ایک ہفتے کے بعد ایک ندی کے کنارے پر پیر صاحب کی دستار پڑی تھی جس سے سب نے اندازہ لگا لیا کہ پیر صاحب نے خودکشی کر لی تھی ۔