زندان کا روشندان میرے کمرے میں دنیا سے رابطے کا واحد ذریعہ ایک چھوٹا سا روشندان

زندان کا روشندان میرے کمرے میں دنیا سے رابطے کا واحد ذریعہ ت کی ایک چھوٹا سا روشندان ہے۔جب اس سے کرنیں اندر آتی ہیں تو میں جان جاتا ہوں کہ صبح ہو گئی ہے رات کی تاریکی مجھے رات آنے کی اطلاع دیتی ہے۔ویسے تو مجھے دن رات کے آنے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا مگر میرے پاس کرنے کو اور کچھ نہیں لہذا میرا واحد مشغلہ اس

 روشندان سے آنے والی آوازوں کو سننا کو سننا اور ماضی کو یاد کرنا ہے ۔ میں لئیق احمد کراچی میں ایک اچھی پوسٹ پر جاب کر رہا تھا زندگی اگر بیحد آسان نہ تھی تو دشوار بھی نہ تھی۔میرا تعلق بلوچستان علاقے ڈیرہ مراد جمالی سے ہے۔جی ہاں سابقہ وزیراعظم ظفر اللہ جمالی کے شہر سے ۔ میرا بچپن نہیں گزرا تھا ۔ جہاں میں اپنے چچا کی بیٹی سوہنی کیساتھ کھیلتا تھا ۔ سوہنی صرف نام کی ہی سوہنی نہ تھی بلکہ سچ میں پریوں جیسی تھی ۔ سانولی سلونی ، کالی بھنورے جیسی آنکھیں ، لمبے ریشمی کالے بال اور نرم ملائم جلد ۔جو دیکھتا حیران ہوتا کہ یہ حسن بنگال یہاں کہاں سے آگیاوعده میرے بابا اور چچا دو ہی بھائی تھے ۔ میرے دادا نے سوہنی کی پیدائش پر میری اس سے منلنی کر دی تھی ۔ ہم دونوں ہی بچپن سے اس بات سے آگاہ تھے ۔ جب میں میٹرک کیبعد کالج داخلے کیلئے کراچی روانہ ہو رہا تھا تو سوہنی نے رو رو کر برا حال کر لیا تھا ۔ شام کو وہ کتابیں دینے کے بہانے ہمارے گھر آئی تھی جو اس کے گھر سے کچھ فاصلے پر تھا اور میرے ، کمرے میں بیٹھ کر جی بھر کے رونے کیبعد مجھ سے کہلر و ه کرد کراچی جا کر مجھے بھول نہ جاؤ گے نہ ہی ہی کسی شہری لڑکی سے شادی کر کے لاؤ گے ۔ میں نے شرارت سے جواب دیا ۔ اب اگر کسی شہری لڑکی پر دل آ گیا

تو مجبورا شادی تو کرنا ہی پڑے اور اسکی سکیوں میں اضافہ ہو گیا تھا ۔ بڑی مشکل سے اسے یقین دلایا کہ میں تو مذاق کر رہا تھا اور میرے دل پر صرف اس کا ہی قبضہ تھا وہی میرے خوابوں کی شہزادی ۔جب میں کراچی کے کالج میں ہاسٹل میں مقیم تھا تو روز اسکا فون آتا ۔ ہم مستقل رابطے میں تھے ۔ اور چھٹیوں کا بے چینی سے انتظار کرتے ہی چند دن کی چھٹی ہوتی میں ٹرین پکڑتا اور سیدھا شهریپہنچ جاتا ۔ پڑھائی کیبعد مجھے کراچی ہی میں ایک پرائیویٹ لمپنی میں اچھی جاب مل گئی ۔ بابا اور ماں نے چچا اور بچی سے شادی کی تاریخ لے لی اور یہ طے ہوا کہ میں چند دن کی چھٹی لے کر جاؤں گا اور سوہنی کر کراچی ہی لے آونگا ۔ لہذا میں نے گلشن اقبال میں ایک چھوٹا سا فلیٹ کرائے پر لیکر اسے سجا لیا او چیز سوہنی کی پسند سے لی تھی۔جب میں چھٹی لیکر کو بیاہ ہر پہنچا تو ایک قیامت میری منتظر اللہ وسایا جو کہ ایک بڑا زمیندار اور وڈیرہ تھا وہ اپنی زمین سے ملحقہ ہماری زمین خریدنا چاہتا تھا اور بابا پر دباؤ ڈال رہا تھا کہ وہ اسے اونے پونے داموں زمین بیچ دیں ۔ بابا پہلے تو اپنی زمین بیچنا نہیں چاہتے تھے اور اگر بیچنا ہی پڑتی تو کم از کم اتنے پیسے تو ملتے کہ ہم کراچی جا کر کوئی چھوٹا موٹا فلیٹ ہی خرید سلتے پر وڈیرے تو ہم غریب لوگوں کو بھیڑ لوگوں کو بھیڑ بکری سمجھتے ہیں

 لئے پہلے پہل تو اللہ وسایا نے بابا کو آرام سے ھمکیوں پر ا پر اتر آیا بابا نے مجھ سے ذکر نہ پہنچا تو وڈیرے کے بندے بابا کو ۔ ۔ اس یشکش پھر کیا۔لیکن 2.5بتا کر واپس نکل رہے تھے کہ اب اس کے پاس آخری موقع ہے کہ زمین وڈیرے کے نام کر دے ورنہ اسکے اکلوتے بیٹے کو قتل کر دیا جائے گا ۔ میں گھر میں داخل ہوا تو ماں سے پوچھا ” ہاں یہ وڈیرے اللہ وسایا کا منشی کیوں آیا تھا ہمارے گھر ؟ ” ماں پریشان بیٹھی تھی اس نے رونا شروع کر دیا ۔بابا سے سوال کیا تو انہوں نے سارا ماجرا سنایا ۔ مجھے شدید غصہ آیا ۔ ” یہ کوئی جنگل ہے کہ جس کا دل چاہے ہماری زمین پر قبضہ جما لے میں پولیس کے پاس جاؤں گا ۔ ” کر بابا نے یہ سنکر مجھے سمجھایا ” نہیں بیٹا ! ہم ایسا نہیں سکتے پولیس بھی وڈیرے ہی کا ساتھ دے گی وہ انہیں ماہانہ پیسے جو دیتا ہے ۔ ہمارے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں کہ زمین بیچ دیں ۔ ” ” میں خود وڈیرے سے بات کرونگا آپ فکر نہ کریں ۔ ” میں نے بابا سے کہا ۔ اگلے دن میں وڈیرے سے بات کرنے اسکی حویلی گیا تو باتوں باتوں میں مجھے غصہ آگیا وڈیرے نے پنے پالتو غنڈوں سے مجھے پٹوا کر باہر پھینک دیا ۔

میں وہاں سے کرتا پڑتا اٹھا اور تھانے جا کر ایف آئی آرکٹوانے کی کوشش کی ۔ تھانے دار نے ایف آئی آر تو کائی نہیں ۔ہاں وڈیرے کو فون پر اطلاع ضرور کر دی ۔ سٹیشن سے نکلا تو اللہ وساما میں مایوسی کے عالم میں پولیس کے منشی اور غنڈے مجھے جیپ میں ڈالکر حویلی تے آئے اور اس دن سے میں اس حویلی کے تہہ خانے میں موجود نجی جیل کے زنداں میں قید ہوں ۔ مجھے نہیں معلوم میرے ھر والوں ! لیا ہوا سوہنی کیا ہوا چچا چچی میرے والدین کو میرے بارے میں کچھ پتہ چلا یا نہیں ۔ مجھے یہاں قید ہوئے شاید تین سال ہو گئے ہیں ۔ دن میں دو بار مجھے کھانا دے دیا جاتا ہے اور بس ۔ میں روز دعا کرتا ہوں اللہ اس قید سے نکلنے کا دے لیکن شاید اللہ تعالی ہم غریبوں کی – کوئی سبب دعائیں بھی نہیں بنتا ۔ نجانے اس کتنے لوگ قید ہو مجھے تہہ خانے میں اور کبھار کسی کے رونے کی بھی آواز آتی ہے لیکن کوئی کھڑکی نہیں جس سے میں دیکھ سکوں ۔ پھر ایک دن ایسے لگا جیسے بہت سے لوگ افراتفری میں دوٹر رہے ہوں ۔ اچانک میرے زنداں کا دروازہ کھلا اور کچھ پولیس والے مجھے پکڑ کر باہر نے . آئے ۔حویلی کے صحن می بہت سے مفلوک الحال مرد عورتیں موجود تھے ۔

پولیس والوں کیساتھ میڈیا بھی تھے۔جو ہم سب سے یہ پوچھ رہے تھے کہ کب سے اس نجی جیل میں قید تھے اور کس مروجہ ہمیں قید کیا گیا تھا ۔ انٹرویو اور پولیس کی پوچھ کچھ ہمیں آزاد کر دیا گیا ۔ حویلی کیٹ سے باہر قدم رکھا تو دیکھا تقریبا سارا گاؤں باہر کھڑا تھا کچھ لوگوں کے رشتے دار اس قید سے نکلے تھے باقی ظالم وڈیرے کا تماشہ دیکھنے آئے تھے ۔ میں نے ہجوم پہ نظر دوڑائی تو بابا تو کہیں نظر نہ آئے مگر چچا کو کھڑے دیکھا ۔ میرا حلیہ اس قدر بدل چکا تھا کہ چچا نے مجھے پہچانا ہی نہیں نہیں ۔ میں خود ہی انکے پاس پہنچا اور انہیں مخاطب کیا ۔ چچا ! میں نے مجھے گلے لگایا اور رونے لگے ۔ پھر مجھے لیکر وہ 11 چچا گھر آئے۔میں نے رستے میں بابا بابا ماں چچی سوہنی کا پوچھا پر چا نے کہا پھر چل کر بات کریں گے ٹھیک ہیں ۔ ” سب بیحد گھر پر سب رشتے دار جمع تھے

 مجھے دیکھ کر خوش ہوئے۔ماں نے گلے لگایا اور رونے تو میں آ گیا ہوں ماں اب کیوں روتی ہے ؟ بابا کہاںتو میں آ گیا آ گیا ہوں ماں اب کیوں روتی ہے ؟ بابا کہاں ہیں ؟ مجھے لینے بھی نہیں آئے ؟ کیا کہیں گئے ہوئے ہیں ؟ ” میں نے ماں سے پوچھا چچا نے مجھے بازو سے پکڑا اور ماں سے الگ کرتے ہوئے بونے ” بیٹا ! تم پہلے نہا دھو کو پھر باتیں کریں گے ۔ ” میں نے بھی سوچا پہلے حلیہ درست کر لوں پھر سب کچھ تفصیلا جانوں گا ۔ سب لوگ واپس اپنے گھروں کو چلے گئے سوائے سوہنی چچی اور چچا کے ۔ جب میں نہا کر شیو کر کے کپڑے بدل کر آیا تو سب کھانے پہ میرا انتظار کر رہے تھے ۔ کھانا کھا کر میں اور چچا بیٹھک میں بیٹھ ” چچا ! اب بتا بھی دیں بابا کہاں گئے ہیں اور پولیس وڈیرے کی جیل تک کیسے پہنچی ؟ ” کیا بتاؤں بیٹا ! جب تم وڈیرے سے بات کرنے چویلی اور واپس نہ آئے تو ہم مجھے وڈیرے نے مھیں قتل کر دیا ہے ۔ بھائی رحیم بخش حویلی گیا تاکہ تمھارے متعلق کوئی خیر خبر لے سکے مگر اسے اندر ہی نہ جانے دیا گیا ۔

صدمے سے وہ بیمار پڑ گیا اور ایک دن اس کا انتقال ہو گیا ۔ چچا نے روتے ہوئے کہا ۔ یہ سن میرے پاؤں کے نیچے سے زمین ہی نکل گئی ۔ بابا آب -اس دنیا میں نہیں رہے تھے ۔ چچا نے دوبارہ گویا ہوئے وڈیرے نے تمھاری زمین پر قبضہ جما لیا میں بھرجائی کو اپنے گھر لے گیا ۔ وہ بھی رات تمھارے لئے روتی تڑپتی تھی ۔ کچھ عر عرصہ پہلے دن نیا لمشنر آیا جو نہایت ایماندار ہے اس نے بھی جیلوں پر چھاپے مارے اور بہت سے قیدی رہا کروائے۔انہی جیلوں میں سے ایک وڈیرے اللہ وسایا کی بھی تھی ۔ خود تو وہ بھاگ گیا مگر اسکے غنڈے اور منشی پولیس لے کئی ۔میں بس ایک آس پہ وہاں گیا تھا کہ شاید وڈیرے نے تمھیں بھی قید کر رکھا ہو اور تم زندہ ہو ۔ اللہ کا شکر ہے کہ اس نے تمھیں ہم سے دوبارہ ملوا دیا۔اب میں جلد ہی تمھاری اور سوہنی کی شادی کر دونگا ۔ اتنے عرصے بعد اللہ نے ہمیں کوئی خوشی نصیب کی ہے ۔ ” مجھے زنداں میں گزرا عرصہ یاد آ گیا ۔ میں نے سوچا سچ ہے جب ظالم حد سے گزر جاتا ہے تو اللہ کی پکڑ میں ضرور آتا ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *