سحرش ایک فرم میں ایک اچھی پوسٹ پر جاب کرتی تھی ہر وقت خاموش طبیعت اور اپنے کام سے کام رکھنے والی لڑکی تھی اس کے ماضی کے بارے میں کسی کو کچھ بھی معلوم نہیں تھاداؤداسی فرم میں مینجر تھا اس نے اپنی کلاس فیلو علینہ سے محبت کی شادی کی تھی اور ان کا ایک بیٹاز او یار اور بیٹی زار یہ تھی زاد یار 2 سال جبکہ زار یہ گاہ کی تھی داؤد کی بیوی علینہ کی زاریہ کی پیدائش پر ڈیٹھ ہوگئی
تھی یوں داؤد اکیلا ہو گیا اور اپنی ماں کے ساتھ اپنے بیٹے اور بیٹی کی پرورش کر رہا تھاداؤد بیٹا اب تمہیں اپنا گھر بسالیناچاہیے میں بہت بیمار رہتی ہوں میر اکچھ پتا نہیں کسی بھی وقت آنکھیں بند کر دوں داؤد کی والدہ نزہت بیگم نے کہامی مجھے علینہ کے علاوہ کوئی بھی اچھا نہیں لگتا جب کوئی اچھی لگی کر لوں گا شادی میں بھی داؤد یہ کہہ کر آفس چلا گیا وہاں جاتے ہی اس کی ملاقات سحرش
سے ہوئی تو اس کو دیکھتے ہی اس کے ذہین میں اپنی ماں کی صبح والی بات آگئی اپنے کمرے میں پہنچ کر اس کے سامنے بار بار سحرش کا چہرہ گھوم رہا تھا لنچ ٹائم اس نے سحرش کو کال کر کے بولامس سحرش مجھے آپ سے کچھ بات کرنی ہے آج آپ میرے ساتھ باہر بیچ کے لیے چلیں جی سر خیریت تو ہے نہ میں نے کچھ غلط کر پنچ دیا ہے سحرش نے پریشان ہوتے ہوئے کہاسب خیریت ہے
بس تم پار کنگ میں آجاؤ داؤد نے کہابی سرا بھی آئی سحرش نے اپنا بیگ اٹھایا اور پارکنگ کی طرف چل دی گاڑی میں بیٹھ کر اس نے پو چھا سر سب ٹھیک ہے نا ؟؟؟؟ سب ٹھیک ہے بس ریسٹورنٹ پہنچنے تک صبر کر لو داؤد نے کہاداؤد کے فون کی گھنٹی بجی تو اس کی امی کی کال آرہی تھی ہیلوامی داؤد نے فون کان کے ساتھ لگاتے ہوۓ کہا بیٹا میری طبیعت بہت خراب ہورہی ہے جلدی سے گھر
آجاؤ داؤد کی امی نے بس اتنا کہا آگے کچھ نہ کہہ سکیں اور فون ان کے ہاتھ سے گر گیا ہیلو ہیلوامی امی ہیلو داؤد پریشان ہو گیا اور گاڑی کھر کی طرف موڑ دی کیا ہوا ہے سر ؟؟؟؟ سحرش نے پوچھامیری امی کی طبیعت خراب ہو گئی ہے داؤد نے پریشانی کے عالم میں کہا گھر پہنچے تو اس کی امی زمین پر گری ہوئیں تھیں امی امی آپ کو کیا ہوا ہے داؤد نے کہا سر آپ آنٹی کو ہسپتال لے جائیں میں آپکے بچوں کو دیکھ لیتی ہوں سحرش نے کہا شکر یہ سحرش داؤد یہ کہہ کر اپنی امی کو لے کر ہسپتال چلا گیا وآپسی اس کی رات گئے ہوئی گھر میں داخل ہوا تو کھانے کی خوشبو نے ان لوگوں کا استقبال کیا وہ مسکراتے ہوئے اپنی امی کو ان کے کمرے میں چھوڑ آیا پھر اپنے کمرے کا رخ کیا تو سحرش زاویار اور زاریہ کے ساتھ اس کے بیڈ پر سورہی تھی اس نے غور سے دیکھا تو دونوں بچے اس کو اس طرح
چمٹ کر سورہے تھے جیسے ان کی ماں ہو ان کے ساتھ داؤد و آپس جانے لگاتو سحرش کی آنکھ کھل گئی سر آپ لوگ آگئے سحرش اٹھ کر بیٹھ گئی آپ لوگوں نے کچھ کھایا ہے میں آپ کے لیے کھانا نکال دیتی ہوں نہیں کھایا تو کچھ نہیں آپ زحمت نہ کریں میں خود لے لوں گا اور رات کافی ہو گئی ہے آپ کے گھر والے پریشان ہورہے ہونگے تو میں پہلے آپ کو ڈراپ کر دیتا ہوں داؤدنے کہا نہیں سر آپ فریش ہو کر کھانے کے ٹیبل پر آجائیں میں آپ کے لی کھانا نکالتی ہوں اور میرے گھر والے پریشان نہیں ہورہے ہونگے کیونکہ میں ہاسٹل میں رہتی ہوں یہ کہہ کر سحرش باہر نکل گئی داؤد فریش ہو کر ٹیبل پر آیا تو کھانادیکھ کر حیران ہو گیا کیونکہ کھاناسارا اس کی پسند کا تھا آپ کو کیسے پتا کہ مجھے بریانی پسند ہے اور میٹھے میں رسملائی سر مجھے کیسے پتا ہوتا تھا وہ تو گھر میں جس
چیز کا سامان موجود تھا میں نے بنادی سحرش نے کہا بچوں نے آپ کو تنگ تو نہیں کیا ؟؟؟ داؤد نے پوچھا نہیں سر بہت پیارے بچے ہیں ماشاء اللہ سحرش نے کہا سحرش آپ نے کبھی بتایا ہی نہیں کہ آپ ہاسٹل میں رہتی ہیں داؤد نے پوچھا آپ نے کبھی پوچھاہی نہیں سحرش نے کہا اچھا سراب آپ سو جائیں صبح آفس بھی جاتا ہے ٹھیک ہے آپ بچوں کے پاس ہی سو جاؤ میں گیسٹ روم میںسو جاتا ہوں داؤ د نے کہا سحرش بچوں کے پاس چلی گئی اور داؤد گیسٹ روم میں چلا گیا داؤد کی آنکھوں سے نیند کوسوں دور تھی اسے سحرش بار بار اپنی آنکھوں کے سامنے نظر آرہی تھی اس کی سنجیدہ اداس آنکھیں اسے اندر ہی اندر کاٹ رہی تھیں اسے سحرش کی کمی شدت سے محسوس ہونے لگی لیکن وہ ہمت نہیں کر پارہا تھا کہ بچوں والے کمرے میں جا کر اس سے بات کر لے
صبح ناشتے کے بعد داؤ د تیار ہو کر آیا تو سحرش تیار ہو کر زار یہ کو سلانے کی کوشش کر رہی تھی داؤد کی امی اس کے پاس بیٹھی تھی داؤد کی امی کچھ دیر کے لیے باہر چلی گئی تو داؤد نے سحرش سے کہا مجھ سے شادی کرو گی ؟؟؟؟؟ …… سحرش نے اس کی طرف دیکھا اور بچی کو لیٹا کر وہاں سے نکل گئی اور کوئی بھی جواب نہیں د یاداؤد اس کے پیچھے چل پڑا اور اس کو زبردستی اپنی گاڑی میںبیٹھا یا مجھے جانے دیں میں خود چلی جاؤں گی سحرش نے کہادیکھیں سحرش میں نے کوئی انوکھا سوال تو نہیں کیاداؤد نے التجائیہ انداز میں کہا کیا جانتے ہیں آپ میرے بارے میں ؟؟؟؟ کچھ بھی نہیں عرش نے غصے سے کہا نہیں جانتا تو بتادیں اور سچ پوچھو تو میں جاننا چاہتا بھی نہیں داؤد نے کہا تو سنیں میں پہلے سے شادی شدہ ہوں اور میری ڈائیورس ہو چکی ہے اور وجہ سے اولاد نہ ہو ناجبکہ خامی
مجھ میں نہیں تھی اس نے اپنی خامی چھپانے کے لیے مجھے چھوڑ دیاسرش رونے لگی باقی آپ کی بات کا جواب میں اپنی امی سے بات کیے بنا نہیں دے سکتی بے شک آپ اپنی امی سے بات کریں لیکن اتنا یادرکھیے گا کہ میں آپ کو چاہنے لگاہوں داؤد نے کہا آفس میں دونوں نے ایک دوسرے سے بلکل بھی بات نہ کی اگلے 2 دن سحرش بھی آفس نہ آئی اور فون بھی اس کا بند تھا تیسرےدن دوپہر میں سحرش نے داؤد کو کال کر کے کہا کہ آپ اپنی امی کو آج رات کے کھانے پر میرے گھر لے آئیں میں لوکیشن سینڈ کر رہی ہوں یہ سنتے ہی داؤد کی جان میں جان آئی وہ فور آاپنے گھر گیا اور اپنی امی ک سب بتایا اور ان کو تیار ہونے کا بولا شام کو گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد داؤ داپنے بچوں اور امی کے ساتھ مٹھائی لے کر پانچ گئے سحرش کے بھائی اور امی نے ان کا استقبال کیا سحرش نے اپنیبھابی کے ساتھ مل کر کھانے کا بہت اچھا اہتمام کیاہواتھا ایک ہفتے بعد ان دونوں کا سادگی سے نکاح کر دیا گیایوں داؤد کو ایک ہمسفر اور اس کے بچوں کو ماں مل گئی اور سحرش داؤد جیسے جیون ساتھی کو پا کر نہال تھی ختم شد