بغداد کے بڑے بازار میں ایک فقیر نان بائی کی دکان کے سامنے سے گزرا جہاں انواع واقسام کے کھانے بھی چولھے پر چڑھے ہوۓ تھے جن سے بھاپ نکل رہی تھی ۔ان کھانوں کی خوشبو ، ان کی لذت اور ذائقے کا بنیادی رہی تھی ۔
فقیر کادل للچایا تو اس نے اپنے تھیلے میں سے ایک سوکھی روٹی نکالی اور ایک دیگ کی بھاپ سے اسے نرم کر کے کھانے لگا ۔نان بائی چپ چاپ یہ تماشا دیکھتا رہا ۔ جب فقیر کی روٹی ختم ہو گئی اور وہ جانے لگا ۔ تو اس کار استہ روک لیا اور پیسے مانگے ۔کون سے پیسے ؟ فقیر نے بے بسی اور حیرت سے پوچھا ۔ نان بائی نے کہا کہ تونے میرے کھانے کی بھاپ کے ساتھ روٹی کھائی ہے اس کی قیمت مانگ رہا ہوں ۔ وہاں پہلول دانا بھی موجود تھے اور یہ سب دیکھ رہے تھے ۔
انھوں نے مداخلت کی اور نان بائی سے کہا کہ کیا اس غریب آدمی نے تمھارا کھانا کھایا ہے جو پیسے ادا کرے ۔ نان بائی نے کہا کھانا تو نہیں کھایا مگر میرے کھانے کی بھاپ سے فائدہ تو اٹھایا ہے ۔ اس کی قیمت مانگ رہا ہوں ۔اس کی بات سن کر بہلول دانانے سر ہلایا اور اپنی جیب سے مٹھی بھر سکے نکالے ۔ وہ ایک ایک کر کے ان سکوں کو زمین پر گراتے جاتے اور نان بائی کی طرف دیکھ کر کہتے
میرلے پیوں کی کھنک سمیٹ لے ، بیر لے اپنے کھانے کی بھاپ کی قیمت ان سکوں کی کھنک سے وصول کر لے یہ آواز ہی تیرے کھانے کی خوشبو کی قیمت ہے ۔وہاں کئی لوگ جمع ہو چکے تھے ۔ تب حضرت بہلول نے کہا اگر تو اپنے کھانے کی بھاپ اور جوش اور خوشبو بیچے گا تو اس کی انہی قیمت ادا کی جاسکتی ہے ، اس لیے قبول کر نا پڑے گا ۔