ایک بادشاہ نے اپنی دلکش اور خوبصورت بیٹی کی شادی کرنی تھی آخر شہزادی کی شادی چرواہے سے ہو گئی ۔

ایک بادشاہ کی بیٹی بہت خوبصورت اور دلکش تھی اسے شہزادی کی شادی کرنی تھی ۔ آس پاس کے سارے ملکوں کے بادشاہ شہزادی سے شادی کرنے کے خواہش مند تھے ۔ بادشاہ نے سوچا اگر کسی ایک ملک کے شہزادے یا بادشاہ سے اس کی شادی کر دوں تو دوسرے ملکوں کے بادشاہ ناراض ہو جائیں گے کیوں نہ کوئی ایسی چال چلی جاۓ کہ میری بیٹی کی شادی بھی ہو جاۓ اور کوئی بھی ناراض نہ ہو ۔ اس نے وزیر سے مشورہ کرنے کے

بعد ملک بھر میں اعلان کروا دیا کہ فلاں دن فلاں میدان میں گڑوی گھمائی جاۓ گی اور جس شخص پر گڑوی ٹھہرے گی اس ے شہزادی کی شادی کی جاۓ گی ۔ فیصلے والے دن ایک چرواہا بھی اس میدان میں جا پہنچا جو بکریوں کی طرح کھاتا پیتا تھا ۔ وہاں عقل اور بخت کی آپس میں تکرار ہو گئی ۔ بخت نے عقل سے کہا اب میرا کمال دیکھو میں چرواہے کا ساتھی بن رہا ہوں پھر مان لینا کہ کون طاقتور ہے ، عقل نے کہا دیکھا جاۓ گا تم

اپنا کام دکھاؤ ۔ میدان میں جب سب لوگ جمع ہو گئے تو بادشاہ نے گڑوی گھمانے کا حکم دیاد گڑوی گھومتی ہوئی سیدھی چرواہے کے سامنے آکر رک گئی جس کا منہ سر مٹی مٹی تھا کپڑے پھٹے پرانے تھے ۔ دوسرے ملکوں کے بادشاہ اور شہزادے حیران تھے کہ اتنی حسین و جمیل شہزادی کی شادی اس غریب سے ہو گی ۔ خود بادشاہ بھی حیران و پریشان تھا ۔ آخر اس نے فیصلہ کیا کہ گڑوی دوبارہ گھمائی جاۓ ، جب گڑوی دوبارہ

گھمائی گئی تو خدا کی قدرت سے وہ پھر چرواہے کے سامنے آ کر رک گئی ۔ بادشاہ نے تقدیر کا فیصلہ سمجھ کر اسے اپنا داماد قبول کر لیا ۔ چرواہے کو غسل کے بعد بہترین کپڑے پہناۓ گئے اور بنا سنوار کے اسے بادشاہ کے پاس لایا گیا پھر بادشاہ نے اپنی بیٹی کی شادی اس سے کر دی ۔ نکاح کے بعد چرواہے کو کھانا ملا جو اس نے اپنی عادت کے مطابق بکریوں کی طرح الٹا لیٹ کر کھایا ۔ تمام لوگ اسے حیران ہو کر دیکھتے رہے ۔ کھانا کھانے

کے بعد کنیز میں اسے شہزادی کے پاس چھوڑ آئیں ۔ وہ وہاں بھی چرواہوں والی آواز میں دیتا رہا ۔ بیچاری شہزادی کو بہت دکھ ہوا ۔ وہ اداس اور خاموش بیٹھی اس کی سب حرکتیں دیکھتی رہی پھر اس نتیجے پر پہنچی کہ چرواہے میں ذرہ برابر بھی عقل نہیں ہے کیوں نہ اس سے تین سوال پوچوں اگر غلط جواب دے گا تو اسے پھانسی پر چڑھا دوں گی اور میری جان آزاد ہو جاۓ گی ۔ یہ سوچ کر اس بیچاری شہزادی نے اس سے کہا کہ تم سے ۔

سوال پوچھتی ہوں اگر تم نے جواب درست دیئے تو ٹھیک ہے ورنہ تم کو پھانسی کی سزا ملے گی ۔ چرواہے نے بلا سوچے سمجھے شہزادی کی بات تسلیم کر لی ۔ شہزادی نے پوچھا بتاؤ پیٹ کس کا اچھا ہے ، پانی کس کا اچھا ہے اور پھول کون سا اچھا ہے ۔ چرواہے نے کہا کہ پیٹ مچھلی کا اچھا ہے ، پانی لکڑی کا اچھا ہے اور پھول گوبھی کا ۔ چرواہے کے الٹے جواب سن کر شہزادی غصے سے آگ بگولہ ہو گئی اور فورا وزیر کو بلا کر ے

حکم دیا کہ اس بیوقوف کو لے جا کر پھانسی دے دو ۔ عقل اور بخت دونوں یہ تماشہ دیکھ رہے تھے کہ اب یہ مرے گا ۔ پھر عقل نے بخت سے کہا تم نے اس کے ساتھ بھلائی کی ۔ اس کی شہزادی سے شادی کرائی مگر ایسا بخت کس کام کا کہ شادی کی رات ہی اسے پھانسی دی جارہی ہے ، اب ہمت کر و اور اس ت کی مدد کرو ۔ بخت نے کہا میری جتنی طاقت تھی وہ میں نے ا دکھا دی اب یہ جانے اور اس کا مقدر اس پر عقل نے کہا کہ

میں اس کی جان بچا کر دکھاتی ہوں اب تم دیکھو یہ کہہ کر وہ چرواہے کے دماغ میں جا کر بیٹھ گئی اور چرواہا یکدم ہوش و آپ کر جارہے ہیں ، وزیر نے اسے شہزادی کے حکم سمیت ساری ۔ باتیں بتائیں جس پر چرواہے نے سوچا کہ اگر اب ہمت نہ کی اور عقل سے کام نہ لیا تو مارا جاؤں گا کیوں نہ کسی طریقے سے جان بچائی جاۓ اس نے وزیر سے کہا محترم وزیر شہزادی کا حواس میں آ گیا ۔ اس نے وزیر ہے نے کہاں لے

حکم سر آنکھوں پر مگر مرنے سے پہلے مجھے ایک بار بادشاہ سے ملوا دوو پھر تم مجھے خوشی سے پھانسی دے دینا وزیر نے اس کی بات مان لی اور اسے بادشاہ کے حضور پیش کر دیا ۔ بادشاہ نے پوچھا کیا بات ہے کیسے آنا ہوا ہوا ۔ چرواہے نے کہا بادشاہ سلامت آپ نے اپنی خوشی سے شہزادی سے میری شادی کرائی ہے اور شادی کی رات ہی کسی کو پھانسی دینا کہاں کا انصاف ہے , بادشاہ نے جواب طلب نظروں سے وزیر کو دیکھاد وزیر نے سر جھکا کر کہا بادشاہ سلامت آپ ہمیشہ سلامت رہیں ۔

شہزادی صاحبہ کا حکم ہے کہ یہ احمق ہے اس لئے اسے پھانسی دی جاۓ , بادشاہ نے شہزادی کو طلب کیا اور اس سے واقعہ پوچھاد شہزادی نے بادشاہ کو بتایا کہ حضور ہم نے شرط رکھی تھی اور اس ک نے میرے سوالوں کے جواب درست نہیں دیے اس لیے ہم نے اسے پھانسی کا حکم دیا ہے ۔ بادشاہ نے کہا وہ سوال ہمارے سامنے پوچھیں جائیں اگر درست جواب دے گا تو ٹھیک ہے ورنہ اسے پھانسی پر چڑھا دینا ۔ شہزادی نے پہلا سوال کیا کہ پیٹ کس کا اچھا ہے چرواہے نے جواب دیا کہ پیٹ دھرتی کا اچھا ہے جس

میں سب کچھ سا جاتا ہے ۔ شہزادی نے دوسرا سوال کیا پانی نکس کا اچھا ہے چرواہے نے کہا پانی بارش کا اچھا ہے جس پر سانس لینے والی ساری مخلوق کی زندگی کا انحصار ہے ۔ شہزادی نے تیسرا سوال کیا کہ پھول کس کا اچھا ہے چرواہے نے جواب دیا کہ کپاس کا پھول سب سے اچھا ہے جو ساری مخلوق کا تن ڈھانپتا ہے ۔ یہ جواب سن کر بادشاہ نے کہا بیٹی یہ سب باتیں تو عقل مندوں کی ہیں جس پر شہزادی نے شرمندہ ہو کر اپنے شوہر سے معافی مانگی اور پھر وہ خوشگوار زندگی گزارنے لگے ۔ یہ دیکھ کر بخت نے عقل

سے کہا اے عقل تم مجھ سے طاقتور ہو میں کچھ بھی نہیں ہوں ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *