امام ابن جوزی رحمتہ اللہ علیہ کی کتاب الا لڑکیہ میں درج ہے کہ ابو القاسم النجمینی یہ قصہ بیان کرتے ہیں کہ کسی خلیفہ کی ایک کنیز نہایت حسین و جمیل تھی ۔ خلیفہ وقت اس سے بہت محبت کرتا تھا اور وہ خلیفہ غالبا ہارون الرشید تھا ۔ کہا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ خلیفہ کی محبوبہ کنیز نے انگڑائی لی اور اس نے اپنے ہاتھوں کو نیچے لانا چاہا لیکن کوشش کے باوجود بھی ایسانہ کر سکی اور اس کے بازواس طرح کھلے ہی رہ گئے ۔ جب وہ اپنے بازوؤں میں سخت درد کی وجہسے چلانے لگی
تو محل میں موجود تمام کنیز میں اس کے ارد گرد جمع ہو گئیں اور اس کو تکلیف میں مبتلا دیکھ کر خلیفہ کو بھی اطلاع دی ۔ خلیفہ ہارون الرشید نے آ کر اپنی محبوبہ کنیز کا مشاہدہ کیا تو اسے بہت دکھ ہوا ، چنانچہ وہ اس سے بے پناہ محبت کرتا تھا اس لیے فوراً یہ حکم دیا کہ تمام طبیبوں کو ابھی محل میں حاضر کیا جاۓ اور جلد از جلد کنیز کی کوئی صحت یابی کے لئے کوشش کی جاۓ ۔ تمام طبیبوں نے اپنی مہارت اور تجربے پر ناز کرتے ہوۓ اپنی اپنی دواؤں کااستعمال کیا مگر کچھ فائدہ نہ ہوا اور پھر کنیز کو اس حالت میں کئی دن گزر گئے ۔ خلیفہ وقت بھی بہت پریشان تھا ایک روز اس نے اپنے شاہی طبیب کو اپنے پاس بلایا اور مشورہ کیا ۔ وہ عرض کرنے لگا اے امیر المومنین دوا کی بجاۓ اگر اس کے پاس کوئی اجنبی شخص پہنچے اور اس کی مالش کرے تو یہ ٹھیک ہو سکتی ہے ۔ خلیفہ اس کی بات سن کر غصے میں آ گیا
اور کہنے لگا کہ تم نے یہ سوچا بھی کیسے کہ میری محبوبہ کنیز کو کوئی غیر مرد ہاتھ لگاۓ اگر مالش ہی کروانیتو کسی دوسری کنیز سے بھی کروائی جاسکتی ہے اگر کوئی غیر مرد میری محبوبہ کے ننگے بدن کی مالش کرتا ہے تو میری کیا عزت باقی رہے گی ۔ میں کیسے برداشت کر سکوں گا ۔ طبیب نے عرض کی حضور یہ کسی کنیز کے بس کا کام نہیں ہے اس کے لیے کسی خاص تجربہ کر آدمی چاہیے اور میں ایسے شخص کو جانتا ہوں جو اس کام میں کافی مہارت رکھتا ہے ۔ آخر کار کچھ سوچ بچار کے بعد خلیفہ اپنی کنیز کی صحت کی خاطر اس بات پر راضی ہو گیا کہ یہ بات ہم تینوں کے درمیان ہی رہے گی ۔خلیفہ وقت نے اپنی کنیزوں سے کہہ کر اس محبوبہ کنیز کے کپڑے اتروا کر اس کو کمرے میں کھڑا کر دیا اور باہر موجود اس طبیب نے ایک شخص کو بلوایا جس نے اپنے چہرے کو کپڑے سے ڈھانپ رکھا تھا ۔ اس شخص نے اپنی آستین میں سے تیل کی شیشی نکالی اور خلیفہ سے کہا کہ مجھے اندر کنیز کے پاس جانے کی اجازت دی جائے گی ۔ خلیفہ نے اجازت دیتے ہوۓ دل ہی دل میں نیت بھی کر لی کہ جب یہ شخص واپس آئے گا تو اسے قتل کر وادوں گا ۔
جب وہ شخص کمرےوجہ سے وہ اپنے ہاتھوں کو اپنے جسم کی حفاظت کے لیے استعمال کرنے میں کامیاب رہی جب کنیز نے اپنے جسم کو ہاتھ سے چھپا لیا تو اس شخص نے کہا کہ تم اپنے مرض سے شفا پا چکی ہو اور اب اپنے جسم کو ڈھانپ لو میرا کام مکمل ہوا ۔ جب وہ شخص کمرے سے باہر آیا تو خلیفہ نے اسے پکڑنے کا حکم دیا اور خلیفہ شاہی طبیب سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ تم ایسے شخص کے ساتھ کیا معاملہ سمجھتے ہو جس نے میری کنیز کو برہنہ حالت میں دیکھا ہے تو طبیب نےمیں اس کنیز کے پاس گیا تو وہ کنیز بر ہنہ طور پر کھڑی تھی ۔ وہ شخص اس کے قریب ہونے لگا ۔ اس کے ایک ہاتھ میں مالش کے لے تیل کی شیشی تھی اور جب وہ دوسرے ہاتھ سے اس کے جسم کو چھونے کے لئے آگے بڑھا تو کنیز پر شدت کے ساتھ گھبراہٹ اور حیا کا غلبہ ہوا ۔ اس نے فورا اپنے ہاتھوں کو نیچے کر کے اپنے آپ کو پیچھے کر لیا اور وہ ہاتھ جنہیں وہ حرکت نہیں دے پارہی تھی کسی غیر مرد کے پاس آنے کے خوف سے اس کا بدن گرم ہو گیا اور طبی حرارت کی عرض کی بادشاہ سلامت ذرا مظہر جائے ، پھر وہ اس شخص کے پاس گیا جو تیل کی شیشی لے کر اس کے جسم کا مشاہدہ کرنے کے لیے گیا تقا طبیب نے اس شخص کی داڑھی کھینچ کی جو مصنوعی نکلی ،
وہ داڑھی طبیب کے ہاتھ میں آگئی اور جب چہرے پر سے کپڑا ہٹایا تو خلیفہ کی ایک کنیز ہی نکلی طبیب عرض کرنے لگا اے امیر المومنین میں کیسے گوارا کر سکتا تھا کہ آپ کی حرمت و ناموس مردوں کے سامنے گرادوں مگر مجھے یہ ڈر تھا کہ اگر یہ بات آپ پر کھول دی تو اس کیاطلاع اس مرئضہ کنیز کو بھی ہو جانی تھی اور پھر میری تمام تدابیر بے کار ہو جاتیں ، کیوں کہ میں نے چاہا تھا کہ اس کے دل میں سخت گھبراہٹ پیدا کر دوں اور اس کی طبیعت پر گرم جوشی پیدا ہو جاۓ اور وہ اپنے ہاتھوں کو کھینچ سکے تو میرے ذہن میں اس کے سوا کوئی اور حیلہ نہ آیا اور میں نے یہی راۓ آپ کے سامنے رکھی تھی ۔ خلیفہ وقت اس طبیب کی ذہانت سے بڑا خوش ہوا اور پھر اسے بہت سارے انعامات سے نوازا ۔