سویرا بہت اچھی لڑکی تھی پڑھی لکھی تھی لیکن اس کا باپ بہت غریب تھا جو بھی رشتہ آتا غریبی کی وجہ سے سویرا کور یجیکٹ کر دیتا۔۔

امی ابو بہنیں سب چاہتے تھے آفتاب کی شادی کسی پڑھی لکھی لڑکی خوبصورت اور ماڈرن سی لڑکی سے ہو آفتاب اچھا لڑکا تھا پڑھا لکھا سافٹ وئیر انجینر تھا امی ابو نے کا فی رشتے دیکھے تھے ہر بار ریجیکٹ کر دیتے کبھی کسی کا قد چھوٹا لگتا تو کبھی کو ئی کم پڑھی لکھی ہو تی ہر بار کو ئی نہ کو ئی نقص ضرور نکال آ تے میں آفس جانے سے پہلے ہر روز میں سنتا کہیں کسی لڑکی کو دیکھنے جا رہے ہے

نہ جانے کتنی بار وہ تیار ہو ئی۔ سویرا کھانا بنا رہی تھی امی پاس آئی سویرا ایک رشتہ آیا ہے لڑکے والے کل دیکھنے آرہے ہیں تم ایسا کرو تیار ہو جا نا کل سویرا کا جسم کا نپنے لگا امی میں تھک گئی ہوں کیا کروں ہر بار کو ئی آتا ہے مجھے میرے سامنے مار جا تا ہے۔میرے اندر میں م ر چکی ہوں امی کل پھر میں تیار ہو سج سنور کر ذلیل کی جاؤ ں گی اماں نے سر پر پہ ہاتھ پھیرا میری بچی ہر کام میں اللہ پاک کی بہتری ہو تی ہے تم رو ن ا بند کرو۔ چائے کی پتیلی چولہے پہ چڑھائی ہو ئی تھی وہ سوچ رہی تھی نہ جانے کون آ ئے گا اتنا سجنا سنورنا پھرمجھ چلنے کا کہا جا ئے گا مجے بولنے کا کہا جا ئے گا مجھے بھیڑ بکری کی طرح پر کھا جا ئے گا مجھ سے نو کرانی کی طرح کھانوں کا پو چھا جا ئے گا

میری ساری اچھائی کے باوجود پھر جہیز مانگے گے میری ابو کو ڈیمانڈ کر یں گے ابو کے ہاتھ پہ بنے زخم۔ میں کیسے دکھاوں ان کو کہ میر ابو تھک گئے ہیں مزدوری کر تے کر تے وہ نہیں نہ دے سکتے با ئیک اور مہنگا فر نیچر آنکھوں میں آنسو تھے چاہے ابال رہی تھی بیٹی ہو نا بھی کتنا مشکل ہو تا ہے۔نہ امی کتنی پر یشان ہو تی ہیں میرے لیے میں کو ئی جان بو جھ کر تو نہیں کہتی کو ئی مجھے یوں انکار کر جا ئے اتنے سے پیارے ہاتھوں سے چائے کی دیچگی اٹھائی امی نے آواز دی بیٹی آ جا اب چائے لے کر ابو لڑکے والوں کے پاس بیٹھے ہو ئے تھے سویرا چائے لے کر گئی لڑکا کہا ں تھا وہ وہ پنتالیس سال کا تھا وہ بار پہلے اپنی بیویوں کو طل ا ق دے چکا تھا لڑکے والے مجھے دیکھ کر کہنے لگی

ہاں لڑکی تو ٹھیک ہی ہے ۔ بس ہم چاہتے ہیں جلدی سے نکاح ہو جا ئے سویرا اس لڑکے کو دیکھ کر بو لی امی کیا میں آپ پر بوجھ ہوں ماں نے پیار سے کہا نہیں میری بیٹی سویرا بو لی ماں میری زندگی بھر کا سوال ہے آپ مجھے ایسے انسان کے ساتھ کیوں بھیج رہے ہیں جو پہلے دو عورتوں کی زندگی تباہ کر چکا ہے سویرا ماتھے کی بند یا اتار نے لگی یا میرے اللہ کیا لکھا ہے۔میرے نصیب میں بھلا میں نے کیا گ ن ا ہ کیا ہے بارش ہو رہی تھی کچا سا مکان تھا چھت سے پانی ٹپکنے لگا نصیب کی ہاری ہو ئی مہمان سب چلے گئے بارش میں بیٹھ کر بر تن دھونے لگی اللہ جی میں بہت ڈرتی ہوں اپنے نصیب سے مجھے کوئی امیر سا انسان تو نہیں چاہیے اے اللہ مجھے بس دو وقت کی روٹی کھلا سکے اور میری عزت کر ے اس اس کی عزت کرو ں بس اللہ مجھے کو ئی اچھا انسان دینا کچھ دن گزرے تھے کہ ایک رشتے وای آ ئی سویرا کی ماں سے کہنے لگی بہن ایک رشتہ ہے لڑکا بہت چنگا ہےفیملی بھی چنگی ہے تم کہو تو بات چلاؤں۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *