نائلہ بہت ہی حسین و جمیل لڑکی تھی جب نائلہ مسکراتی تو میرے جزبات قابو سے باہر ہو جاتے ۔ ایک دن میں گھر آیا تو

وہ بہت بھولی سی تھی ، ہمارے گھر میں کام کرنے آئی تھی یوں کہہ لیں وہ نوکرانی تھی ہماری ۔ نائلہ اور اس کی ماں ہمارے گھر میں کام کرتی تھی ۔ نائلہ ایم بی اے کر رہی تھی پڑھائی سے فری ہو کر ہمارے گھر کام کرتی تھی ۔ بہت پیاری سی تھی ۔ وہ با حجاب اور باپردہ لڑ کی تھی ۔ مجھے اس کی ایک ادا بہت اچھی لگتی تھی وہ نماز کبھی نہیں چھوڑتی تھی ۔ میں نے اسے کئی بار نماز پڑھتے ہوۓ دیکھا تھا ۔ بہت پیاری لگتی تھی بس حالات کے آگے مجبور تھی ۔ ہمارا بہت بڑا بزنس ہے اللہ نے بہت دولت دی ہے ، بابا بہت بڑے بزنس مین

ہیں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں کی جائیداد کے مالک ہیں ۔ اس کے بابا نہیں تھے صرف ماں بیٹی تھیں اور ان کا کوئی نہیں تھا ۔ نائلہ کو پڑھنے کا بہت شوق تھا ، ماں نے گھروں میں کام کر کے نائلہ کو اتنی تعلیم دلوائی تھی ۔ اب تعلیم کے اخراجات زیادہ تھے وہ برداشت نہیں کر پارہی تھی ۔ پہلے نائلہ نے ٹیوشن سینٹر بنایا مگر کوئی بچہ بھی پڑھنے کے لیے اس کے پاس نہ آیا ۔ بس اس لئے ماں نے نائلہ کو بھی وقتی طور پر اپنے ساتھ کام پر لگالیا ۔ نائلہ کا خواب تھا کہ پڑھائی مکمل کرنے کے بعد کوئی اچھی سی جاب کرے گی ۔ پہلے صرف

نائلہ کی ماں ہی ہمارے گھر کام کرتی تھی اب نائلہ بھی ساتھ آتی تھی ۔ میں نے کبھی اس پر دھیان نہیں دیا تھا وہ میرے کمرے میں کھانا چاۓ سب کچھ پہنچاتی تھی میرے جوتے پالش کرتی میں منع بھی کرتا تھا لیکن وہ کہتی تھی صاحب کی کچھ نہیں ہوتا ۔ کبھی کبھی میں اس کو سو پچاس روپے دے دیتا ایک دن امی سے کہہ رہی تھی ہاچی میں نے کالج کی فیس دینی ہے مجھے اس مہینے کی تنخواہ ایڈوانس دے دیں ، پھر اس نے اسے تنخواہ دے دی تو وہ بہت خوش ہوئی میں سب دیکھ رہا تھا میں نے آواز دی نائلہ بات سنو

وہ میرے پاس آئی جی صاحب جی میں نے اسے پانچ ہزار روپے دیے نائلہ یہ لو اپنی کالج کی فیس تنخواہ والے پیسے اپنے پاس ہی رکھنا , پہلے تو اس نے انکار کیا لیکن پھر میرے اصرار کرنے پر اس نے پیسے لے لیے , وہ ہلکا سا لے مسکرائی جیسے کوئی چاند مسکرا رہا تھا ۔ میں نے کبھی اس کو اس نظر سے دیکھا ہی نہیں تھا کچ بتاؤں تو مجھے اس سے نہ چاہتے ہوئے بھی پیار ہو گیا تھا ۔ میں نائلہ کو اپنی ہمسفر بنانا چاہتا تھا مگر یہ سوچ کر پیچھے ہٹ جاتا کہ میرے والدین کبھی بھی اس کو اپنی ہو نہیں بتائیں گے ۔ میرے ابو کا اتنا بڑا بزنس

ہے اور یہ ایک نوکرانی کوئی جوڑ نہیں تھا بس یہی سوچ کر میں چپ ہو جاتا ۔ پھر ایک دن میرے بابائے اپنے ایک دوست کی بیٹی کے ساتھ میری منگنی کر دی میں نے بہت کوشش کی کہ کسی طرح بابا کو بتا دوں کہ میں نائلہ کو پسند کرتا ہوں لیکن پھر ہمت نہ ہو پاتی کہ کہیں بابا مجھ سے خفا نہ ہو جائیں ۔ بابا کے دوست کی بیٹی ماڈرن اور امیر باپ کی اولاد تھی ہم دونوں دوست بھی تھے اور اب ہماری منگنی ہوئی تھی ۔ تانیہ میری منگیتر تھی ۔ تانیہ اپنے پرانے کپڑے نائلہ کو دے دیتی تھی ۔ وہ غربت کی ماری بھی مسکرا کر لے

لیتی ۔ بچا ہوا کھانا وہ گھر بھی لے جاتی تھی ۔ میں کبھی میوزک سن رہا ہوتا تو مجھے کہنے لگتی صاحب جی آپ نماز پڑھا کر میں ناد آپ کیوں گانے سنتے ہیں ۔ میں مسکرا کر کہتا نماز پڑھنے کے لئے تم جو ہو ناو خیر میوزک بند کر کے میں نماز پڑھنے چلا جاتا ۔ نائلہ نے ایم بی اے بھی پاس کر لیا ۔ وہ بہت خوش تھی لیکن پھر ایک دن حادثہ کچھ یوں گزرا کہ نائلہ کی امی کو ہارٹ اٹیک ہوا اور وہ دنیا سے چل بسی ، نائلہ تنہا رہ گئی اس کی دنیا اجڑ گئی تھی اب اس کا کوئی نہیں تعادل کرتا تھا کہ اس کا ہاتھ تھام لوں , وہ بہت روئی تھی پھر میں یہ سوچ کر

اسے دل سے نکالنے کی کوشش کرنے لگا کہ میرے والدین اسے کبھی قبول نہیں کریں گے ۔ میں اپنی دنیا میں خوش رہنے لگا تھا ۔ وہ ماں کے گزرنے کے بعد ہمارے گھر میں ہی رہنے لگی , سارادن وہ چپ چاپ کام کرتی رہتی میں اس کی طرف دیکھتا بھی نہیں تھا ۔ پھر ہمارے گھر میں ایک دن بات ہونے گئی کہ نائلہ غریب ہے بے سہارا ہے اس کی شادی ساتھ والے گھر میں ایک لڑکے سے گرا دیں گے ، میں نے سنا تو اگنور کر دیا ۔ پھر اچانک میری ملاقات اس لڑکے سے ہوئی جس سے نائلہ کی شادی ہو رہی تھی وہ لڑ کا ان پڑھ اور

جاھل تھا ۔ خاندان میں کردار وہ اتنا اچھا بھی نہ تھا ۔ میں خاموش ہو گیا ۔ میں کمرے میں بیٹھا ہوا تھا کہ نائلہ میرے پاس آئی مجھے کھانادیا اور پھر جانے لگی ، میں نے اسے آواز دی وہ رک گئی جی صاحب جی میں اس کے چہرے کی طرف غور سے دیکھنے لگا وہ بہت خوبصورت تھی , حجاب کیا ہوا تھا بالکل شہزادی لگ رہی تھی ۔ میں نے پیار سے پوچھا نائلہ اس لڑکے سے شادی پر تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں ہے ، میرا اتنا کہنا تھا کہ وہ مسکرانے لگی پھر کچھ آنسو اس کے پیارے سے رخسار پر گرنے لگے آنکھیں سرخ ہو گئیں ۔ اماں

کہتی تھی میری بیٹی کو کوئی شہزادہ لینے آۓ گالیکن امی بس خواب دیکھتی تھی ۔ زندگی بہت عجیب ہے ، نہ چاہتے ہوئے سب کچھ چھین لیتی ہے ، پھر درد دیتی ہے اور رونے بھی نہیں دیتی ۔ مغرب کی نماز کا ٹائم ہو گیا ہے صاحب ہی میں نماز پڑھ لوں داتنا کہہ کر وہ چلی گئی ۔ مجھے عجیب سی بے چینی ہونے لگی ۔ اتنی خوبصورت پڑھی لکھی باپردہ سمجھدار لڑکی صرف اس لئے کسی جاھل کے ساتھ بیاہی جا رہی ہے کہ وہ غریب ہے ، نہ جانے کیوں میرادل اس کے لیے پھر سے دھڑ کنے لگاو عجیب سا احساس ہونے لگا ۔ کچھ دن ایسے ہی گزر کئے

پھر ایک دن میں اچانک گھر آیا تو اس نوکر سے نائلہ کا نکاح تھا ۔ نکاح کا وقت بھی ہو چکا تھا ۔ تانیہ بھی آئی ہوئی تھی میں تانیہ کے ساتھ باتیں کر رہا تھا کہ میرادل تڑپنے لگا ۔ بار بار نائلہ کا چہرہ میرے سامنے آنے لگا ۔ وہ پیاری سی لڑکی بھلا کیوں قربان کی جاۓ مجھ سے برداشت نہیں ہو رہا تھا کہ وہ کسی اور کی ہو جاۓ میرادل تڑپنے لگا وہ قبول کہنے ہی لگی تھی کہ میں نے کچھ سوچے سمجھے بنا نائلہ کا ہاتھ تھام لیا ۔ سب میری طرف دیکھنے لگے میں نے نائلہ کے سامنے بیٹھ کر کہا نائلہ تم پڑھی لکھی ہو سمجھدار ہو باحیا ہو , میں نہیں چاہتا کہ تم جہنم

میں زندگی گزار وہ اللہ کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ میں تم سے نکاح کرنا چاہتا ہوں ۔ سب میری طرف حیرانی سے دیکھنے لگے میرے امی ابو اور نائلہ حیران تھی اس کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے تانیہ بھی پاس کھڑی تھی ۔ تانیہ کچھ کہنے ہی لگی تھی کہ میں نے اسے چپ کرواد یاد تانیہ سے معذرت کر کے میں نے منگنی اس وقت توڑ دی تاشیہ اسی وقت چپ کر کے اپنے گھر چلی گئی ۔ نائلہ کو شاید یقین نہیں ہو رہا تھا میں اپنے والدین کی طرف دیکھ رہا تھا اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا میرے ابو میری طرف آۓ اور مجھے سینے سے لگا

کر کہنے لگے مجھے فخر ہے تم پر میری ماں نے نائلہ کو سینے سے لگالیا میں آج بہت حیران تھا کہ میں اپنے والدین کے بارے میں ہمیشہ غلط سوچتا رہا جبکہ میری خوشی کی خاطر میرے والدین نائلہ کو اپنی بہو بنا کر بہت خوش تھے ۔ پھر میرے بابانے میری شادی دھوم دھام سے نائلہ سے کرنے کا فیصلہ کیا ۔ نائلہ بھی بہت خوش تھی ۔ تانیہ کے والد میرے بابا کے بہت ہی اچھے دوست تھے پہلے تو انہوں نے رشتے کی مخالفت کی مگر جب میں نے اور میرے والدین نے ان کے گھر جاکر معذرت کی تو وہ بھی راضی ہو گئے اور تانیہ کارشتہ ایک –

اور اچھی جگہ پر طے کر دیا ۔ کچھ دن بعد میری شادی تھی تانیہ اور اس کے گھر والوں نے بھی شرکت کی ، نائلہ کا میری زندگی میں آنا تھا کہ میری زندگی بدل گئی میوزک چھوٹ گیا ۔ میں نمازی بن گیا ۔ میں نائلہ کا اور نائلہ میری ہو گئی ۔ سب نے مجھے پاگل کہا تھا لیکن میں نے نائلہ کا ہاتھ نہ چھوڑا , سب کچھ اچانک ہوا تھا جیسے کوئی معجزہ ہو ۔ خدا کا لکھا تھا وہ ہو کر ہی رہتا تھا ۔ نائلہ کے بنا اب تو میں ایک سانس بھی نہیں لیتا ۔ اب میں اس کو جوتے پالش نہیں کرنے دیتا داسے سینے سے لگا کر رکھتا ہوں میرا بہت سارا خیال رکھتی ہے ۔ اللہ پاک

نے ایک بیٹی دی ہے ۔ آج نائلہ کی برتھ ڈے ہے وہ سامنے بیٹھی بیٹی کو کھانا کھلا رہی ہے اسے لگتا ہے کہ ہر سال کی طرح میں اس کی برتھ ڈے بھول گیا ہوں لیکن آج کچھ اسپیشل ہے ، عمرے کے ٹکٹ لے کر آیا ہوں نائکہ میری زندگی ہے ، کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ نائلہ میری ہمسفر بن جائے گی اور میری زندگی جنت ہو جائے گی اللہ تعالی کا ہر فیصلہ ہمارے لئے بہتر ہوتا ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *