میں بہت تنگ تھی اس انسان سے ۔ میں اپنی قمست پہ رویا کرتی تھی ۔ ہر وقت خود کو اذیت دیتے رہنا ۔ میرے سینے میں ایک آگ جلا کرتی تھی ۔ بھلا میرے ساتھ ہی کیوں آخر یہ سب ہوا ۔ وہ نہ کوئی کام کرتا تھا نہ کسی قسم کی کوئی ذمہ داری نبھاتا تھا ۔ میں اس سے بیزار ہو چکی تھی ۔ کہنے کو وہ میرا شوہر تھا ۔ لیکن بس باتوں کی حد تک ۔ سارادن بازار میں دوستوں کے ساتھ بیٹھارہتا ۔۔۔
کبھی تاش کھیل رہا ہوتا تو کبھی گپ شپ لگاتارہتا ۔ میں اسے جب بھی کوئی کام کرنے کا کہتی ۔ تو بس اتنا کہتا تمہیں کھانے کے لیے مل رہا ہے نا پھر کیا مسئلہ ہے تمہارے ساتھ ۔ میں اسے سمجھائی زندگی میں اور بھی بہت سی ضروریات میں صرف کھانا پینا ہی نہیں ۔ ہمارے اب دو بچے ہیں ۔ یہ کل کو سکول بھی جائیں گے۔ان کے اخراجات ہوں گے ۔ کون کرے گا پورے وہ مسکرانے لگتا ۔
وقت آۓ گا دیکھا جاۓ گا تم ابھی سے فکر نہ کر میں اپنی دوستوں کو دیکھتی تھی ۔ ان کے شوہر نئی موٹر سائکل بھی نیا موبائل وہ بھی باہر ڈنر کے لیئے جارہے ہوتے تو کبھی گھر میں کوئی پارٹی کر لیتے ۔ اور ایک میں تھی دو وقت کی روٹی بھی مشکل سے مل رہی تھی بھی جو کچھ پیسے مانگ لو تو ڈانٹنا شروع ہو جاتا میں بہت تنگ تھی دل چاہتا تھا بچوں کو لیکر خود کشی کر لوں ۔
لیکن کیسے کر سکتی تھی بچوں کی طرف دیکھتی خاموش ہو جاتی ۔ میں اس سے دور ہونے لگی ۔ دل چاہتا تھا اس سے کہیں دور چلی جاوں وہ خود کو سجا سنوار کر بھی نہیں رکھتا تھا اس سے سگریٹ نسوار کی بد بو سی آتی تھی اور مجھے اس بدبو سے نفرت ہونے لگی تھی ۔ میں اسے سب مچھوڑ نے کا کہتی تو میری بات کو جھٹلا دیتا وہ گھر آتا مجھ سے کھانا مانگتا میں صاف
انکار کر دیتی کھانا نہیں بنایا تھوڑا سا بناتی ۔ بچوں کو اور خود کھالیتی وہ شاید جانتا تھا میں یہ سب جان بوجھ کر کرتی ہوں میرے پاس بیٹھنے کی کوشش کرتا ۔ اس سے جھگڑ نے لگتی اسے طعنے دیتی۔اسے بے عزت کرتی وہ میری طرف دیکھتا اور کہتا تمہار کی عادت ہو چکی ہے ۔ جب وہ چلا جاتا میں رونے لگتی اللہ سے ہزاروں شکوے کرتی ۔ آخر میں ہی کیوں اس جہنم کی حقدار ٹھہری ۔۔
میں نے تو کوئی گناہ بھی نہیں کیا ۔ مجھے کبھی اس کے گھر جانا ہوتا تو اس سے پیسے مانگتی ہزاروں باتیں سناتا پھر آخر ہزار دو ہزار نکال کر مجھے دیتا اور کہتا بہت فضول خرچ ہو گئی ہو تم جب بھی اسی کے گھر جانا ہوتا لڑتے جھگڑتے ہی گئی ۔ وہاں امی بہن بھا بھی سب کہتے پارلر جایا کرو اپنا خیال رکھا کرو ۔ دیکھو رنگ کتنا پیلا پ یے۔میں چپ ہو جاتی آخر کیا بتاتی میرے نصیبوں کو آگ لگانے والا میرا شوہر ہی ہے ۔۔
جو میری زندگی کو جہنم بنانے ہوۓ ہے بڑی بہن کا شوہر دینی جاب کرتا تھا وہ اپنی بیوی کے لیے ایپل والا موبائل کے کر آپا آپی مجھے دکھارہی تھی دیکھو شہناز لاکھ روپے کا موبائل گفٹ کیا ہے تمہارے جیجو نے میں حسرت بھری نگاہوں سے دیکھنے لگی ایک آنسو پلک ۔ کو نم کر گیا کاش کبھی مجھے یہ بھی ایسے قمست مہربان ہوتی کاش اللہ نے میرے بھی نصیب ایسے لکھے ہوتے بچے اب بڑے ہو رہے تھے ۔۔
ایک دن بچوں کی وجہ سے میری جھٹانی اور دیورانی سے جھگڑا ہو گیا ۔ جھٹانی نے کافی طعنے دیۓ ۔ تمہارے بچے میرے گھر سے دو وقت کھانا کھاتے ہیں یہاں رہتے ہیں اتنے غیرت مند ہو تو ان کو کھلا ونا ۔ میں بہت روئی تھی جب اکبر گھر آیا میں نے اسے بتایا آج گھر میں اتنا تماشہ ہوا ہے انھوں نے طعنے دیے ہیں ۔ وہ بھائی کے گھر گیا وہاں سب کے ساتھ جھگڑنے لگا میرے بچوں کو گالیاں دینے والے تم کون ہوتے ہو ۔۔
بات جب بڑھی تو میرے شوہر نے ان سے کہا مجھے الگ کر دو بس گھر میں دیوار کھینچ دی گئی بچوں کو گود میں لے کر کہنے لگا اب ان چاچو لوگوں کے گھر نہیں جانا بھوک لگے تو ماما سے کہنا کھانے کا ۔ میں بولی اب تو کچھ کام دھندا کر لو ۔ وہ بولا کیا تم ہر وقت میرے پیچھے پڑی رہتی ہو بھی پیار سے بات کر لیا کرو ۔ جب دیکھو مجھے طعنے دیتی رہتی ہو تم کو سب کچھ ملتا تو ہے نا پھر کیوں تماشہ کرتی ہو میں نے چلا کر کہا ۔۔۔
سب کے گھر میں نئی موٹر بائیک ہے ۔ اور ہمارے پاس پرانی سی ٹوٹی ہوئی ۔ یہ میرا موبائل دیکھ رہے ہو ۔5 منٹ بھی اس کی بیٹری نہیں رہتی بچوں کی ہزاروں ضروریات ہیں تم کیوں نہیں سمجھتے میں پاگل ہو جاوں گی میری شکل دیکھو میں بھکارن بن گئی ہوں تھک گئی ہوں میں میرے پاس بیٹھ کر بولا تم ہر وقت جھگڑتی رہتی ہو ۔ بھی تو پیار سے بات کر لیا کر میرے ساتھ میں نے اسے سائیڈ پہ دھکا دیا وہ خاموش ہو گیا ۔۔۔
میں تھک ہار گئی تھی اب سوچ رہی تھی بس اس سے طلاق لے لوں گی اپنے ایک دو کزن سے بھی بات کی تھی جو وکیل تھے انھوں نے تسلی دی ہم ساتھ ہیں آپ کے طلاق لے لو اس سے میں سوچ رہی تھی آج گھر آئے گا ۔ تو بس ایس کو بول دوں گی طلاق دے دو مجھے میں انتظار کر رہی تھی وہ رات 10 بجے آیا ۔ بچے سو رہے تھے دونوں بچوں کے ماتھے پہ بوسہ کیا ان کے ہاتھ چومے پھر چار پائی پہ بیٹھ کر مجھے آواز دی شہناز مجھے کھانا دو
میں کروٹ بدلے لیٹی رہی اس نے پھر آواز دی شہناز سن لو اٹھ جاو میں چپ رہی وہ پاس آیا مجھے دیکھا میں نے آنکھیں بند کر لیں مجھ پہ کمبل اوڑھ کر بولا تھک جاتی ہے سارا دن کچن میں کیا کھانا دیکھنے لگا کچھ بھی نہیں تھا کھانے کے لیئے ایک پیالی میں نمک مرچ ڈال کر اس میں تھوڑا پانی ملا کر سوکھی روٹی کھانے لگا میں دیکھ رہی تھی کھانا کھا کر سو گیا دوسرے دن صبح صبح ہم کسی بات پر جھگڑنے لگے میں نے اسے کہا بس مجھے طلاق دے دو ۔۔۔
میں اب برداشت نہیں کر سکتی میں تھک گئی ہوں ۔غصے میں میں نے اس کے کپڑے بھی بھاڑ دیے وہ طلاق کا نام سنتے ہی چپ ہو گیا جلدی سے کپڑے چینج کرنے لگا پھر بائیک کی باہر جانے لگا میں نے چلا کر کہا اللہ کرے تم مر جاو میری جان تو بچھوٹ جاۓ تم سے وہ بائیک باہر کھٹری کر کے کمرے میں گیا کسی کالی یہ کچھ لکھا پھر چلا گیا میں رو رو کر تھک گئی میں اسے بدعا دے رہی تھی میں نے ارادہ کر لیا بس اب اس انسان کے ساتھ نہیں رہنا
دو چار گھنٹے گزرے میں میکے جانے لگی بچوں کو ساتھ لیا اتنے میں گلی میں ایک شور سا برپاہوا میں رورہی تھی ہمارے دروازے پر دستک ہوئی ۔ میں دروازہ کھولا پورا گاوں چار پائی اٹھاۓ میرے دروازے کے سامنے کھڑا تھا میں حیران تھی کیا ہوا اتنے میں ایک لڑکا فون پہ بات کر رہا تھا ۔۔۔ یار اکبر کا ایکسیڈینٹ ہوا وہ مر گیا ہے یہ سنتے ہی جیسے مجھ لی قیامت آ گری میں ساکت ہو گئی چار پائی صحن میں رکھی گئی سب لوگ قبر کھودنے کی بات کرنے لگے
کچھ جنازے کا ٹائم دیکھنے لگے مسجد میں اعلان ہونے لگا اکبر میرے سامنے چار پائی یہ لیٹا ہوا کون یقین کرے وہ مر چکا ہے میں چیخنے چلانے لگی اکبر اٹھ جاو میں نہیں کچھ مانتی مجھے کچھ نہیں چاہیے میں طلاق کی بات بھی نہیں کرتی دیکھو میں کہیں نہیں جارہی مجھے تمھارے ساتھ ہی رہتا ہے میں بھو کی پیاسی رہ لوں گئی مجھے یوں چھوڑ کر نہ جاو لیکن اب بہت دیر ہو چکی تھی اب وہ مجھے چھوڑ کر جا چکا تھا ۔ میں چیختی رہی لیکن وہ مٹی تلے جا سویا
اس کے جانے کے بعد مجھے دنیا کے رنگ نظر آنے لگے مجھے رشتے بدلتے دکھائی دینے لگے پھر جو اپنے تھے وہ سب منہ موڑنے لگے مجھ پر دنیا نظر میں کہنے لگی بچے بابا ڈھونڈنے لگے اب کون ان کا نیند میں آ کر ماتھا چومے گا کون مجھے آواز دے گا کون میرے تلخ لیجے برداشت کرے گا مجھ سے مکان چھین لیا گیا جو حصہ بنتا تھا وہ بھی نہ دیا میں اکبر کے بعد در بدر ٹھوکریں کھانے لگی ۔ اب بچے بھی کچھ فرمائش نہیں کرتے وہ جانتے ہیں
بابا اب نہیں رہے میرے سگے بھائی بھی منہ موڑ کے میں لوگوں کے گھروں میں نوکرانی بن کے کام کرنے لگی ایک دن مجھے اس کی ڈائری ملی جس یہ لکھا تھا شہناز سے شادی کر کے بہت خوش ہوں شہناز سے بہت پیار کرتا ہوں وہ پاگل ہے بلکل سمجھتی ہی نہیں جھگڑتی رہتی ہے دیکھو آج ۔ اس نے مجھے کھانا نہیں دیا وہ کہتی ہے مہنگا موبائل لا کر دو اسے کیسے بتاوں نہیں لا سکتا آج میرے بچوں کو میرے بھائی نے گالی دی میں بہت رویا ہوں
میرے بچے میری جان ہیں شہناز کو بخار ہے وہ بیچاری میرے لیے لیا پچھ برداشت کر رہی ہے اللہ نے چاہا ہمارے حالات بدل جائیں گے پھر شہناز کو دنیا کی ہر خوشی دوں گا اب وہ مجھے کھانا نہیں دیتی میں جانتا ہوں ناراض ہے مجھ سے میں نے نمک مرچ سوکھی روٹی کھائی ہے ۔ آج میری کمر میں اینٹ لگی ہے زخم بہت گہرا ہے شہناز کو نہیں بتاوں گا پریشان ہو جاۓ گی بیچاری ڈاکٹر کہہ رہا 15 ٹانے لگے ہیں آج مجھے چوٹ بھی لگی ہے
کہہ رہی ہے طلاق دے دو میں مر جاوں گا اس کے بنا ابھی غصے میں ٹھیک ہو جاۓ گی میں ڈائری کو پڑھ کر رونے لگی ہمسفر تو ہمسفر ہوتا ہے نا وہ جیسا بھی تھا میرا سایہ تھا میری ڈھال تھا اس کے بعد زمانے کی ٹھوکر میں کھا کر سمجھی ہوں اس کے ساتھ میرے دونوں جہاں تھے تھک ہار کر گھر آتی ہوں اب ٹوٹ چکی ہوں بچوں کی خاطر زندہ ہوں بس ورنہ کب کی ختم ہو جاتی میں خود کو اذیت دیتی ہوں میں کیوں جھگڑتی تھی اس کے ساتھ
کیوں اس کو ستاتی تھی کیوں میں لوگوں کو دیکھ کر بڑے خواب دیکھتی تھی وہ میرے ساتھ ہوتا تو شہزادی سی زندگی گزار رہی ہوتی کیا می بخشی جاوں گی ۔۔ ؟ اللہ مجھے معاف کرے گا میں مشکل وقت میں اس کا سہارا اس کی ہمت نہ بن سکی میں مطلب پرست لالچی ہو گئی تھی میں سب عورتوں کو بتانا چاہتی ہوں کہ پیسہ ہمسفر کے سامنے : خاک بھی نہیں ہے لا پچ اور بڑے بڑے خواب کی تمنا میں لوگوں کی نوکرانی نہ بن جانا ۔
شوہر اگر ایک وقت کی روٹی بھی کھلائے تو مسکرا کر سینے لگ جانا زمانے کی لاکھ تلخیوں کو وہ تمہاری خاطر اپنے سینے پر برداشت کرتا ہے اب میری جھٹانی گالی دے تھی دے تو خاموش رہتی ہوں ۔۔کیوں کے اب میرا ہمسفر میراسامہ میرے ساتھ نہیں ہے ۔۔ پلیز اگر کوئی بہن اپنے شوہر سے یوں بیزار ہے تو سمجھ جاو اس سے پہلے کے آنسو مقدر بن جائیں ۔