پہلی رات تھی ۔ زندگی کی نئی شروعات ۔ ڈری سہمی سی ۔ پریشان سی تھی ۔ کاشف پاس آکر بیٹھا ۔ میڈم جی ۔ کیا بات ہے بڑا سر جھکایا ہوا ہے ۔ کنزہ خاموش رہی۔کاشف نے گھونگھٹ اٹھایا ۔ واہ جی واہ ۔ میں صدقے جاؤں۔کتنا میک اپ کیا ہوا ہے ۔ اگر منہ دھونے کے بعد بھی تم اتنی خوبصورت نہ ہوئی نا ۔ جتنی میک اپ میں ہو تو بس ۔ جان لے لوں گا تمہاری۔کنزہ شرارتی سی بھی تھی ۔ وہ گھر میں بہت لاڈلی تھی ۔ پلکیں اٹھا
کر ۔ کاشف کی طرف دیکھنے لگی ۔ میں تو کالی کلوٹی سی ہوں بات صاف کی ہے ۔ ابھی دھو لیتی ہوں منہ ۔ابھی لے لیں آپ میری جان۔کاشف مسکرانے لگا ۔ بڑی فرمانبردار بیوی ہو بھئی ۔ کنزہ پیار سے بولی ۔ آپ کو پتہ ہے آپ میرے مجازی خدا ہیں ۔ اب تو آپ کے ہاتھ میں ہے میرا جینا بھی میر امر نا بھی۔میر اہنسنا بھی میر ارونا بھی۔ویسے کاشف بی ۔ آپ کو پتہ ہے ۔ مجھے آپ بہت اچھے لگتے ہیں۔اپ باتیں بہت پیاری کرتے ہیں ۔
کاشف نے ہونٹوں پہ ہاتھ رکھا۔او چپ ہو جاؤ میری ساپا کوئین ۔اچھا بتاؤ ۔ کیسا ہمسفر چاہیے تھا تم کو ۔ منہ سا بنا کر بولی۔اب مل گیا اب کیا فائدہ بتانے کا ۔ کنزہ بہت ہی معصومانہ انداز میں باتیں کر رہی تھی۔کاشف جیسے اس کی مٹھاس بھری لیجے کو انجوائے کر رہا تھا ۔ ویسے مجھے ہمسفر چاہیے تھا ۔ جو امریکا سے پڑھ کر آیا ہو ۔ جہاز کا پائلٹ ہو ۔ اس کا بڑا سا گھر ہو ۔ مجھے گرمیوں میں کینڈا کی ٹھنڈی وادیوں میں لے جاتا ۔ گھر میں نوکر ہوتے ۔
بڑی بڑی گاڑیاں ہو تیں۔کاشف افسر دہ سا ہو گیا ۔ کنزہ کاشف کی طرف دیکھ کر ہننے لگی ۔ قسم سے آپ اداس ہو کر بہت برے لگتے ہیں ۔ مذاق کر رہی تھی ۔ اللہ کا شکر ہے آپ میرے ہمسفر ہیں اور میں آپ کالباس ۔ کاشف میں بولتی بہت کم ہوں۔ویسے آپ کو کاشف ہی کہوں یا۔اے جی سنتے ہو ۔ کاشف قہقہ لگا کر ہنسا ۔ گال پہ چٹکی کاٹی ۔ کہاں سے کرتی ہو یہ باتیں ۔ کمپیوٹر ہو بلکل ۔ ہاں ویسے کالج میں سب مجھے لیپ ٹاپ کہتے تھے ۔کاشف نے پھر زور دار قہقہ لگایا ۔ اچھا بتاؤ کھانے میں کیا کیا بنا لیتی ہو ۔ نہ ہی پوچھیں تو اچھا ہے جی۔کاشف سوالیہ نظروں سے بتاؤنا ۔ کھانے میں بس نوڈلز بنالیتی ہوں اور کھانے والے برتن دھو لیتی ہوں ۔ کاشف خاموش ہو گیا ۔۔ بس جی پھر سے ہوٹل کا کھانا کھانا پڑے گا ۔ کنزہ حجٹ سے بولی ۔ وہ تو آپ کھائیں گے ۔ میں تو بس برگر پیزا ۔ میر افیورٹ۔کاشف کنزہ کی باتیں سن کر ساری تھکن بھول چکا تھا شاید کے ۔ کنزہ باتیں کرتے کرتے ۔
اداس ہو گئی ۔ کاشف ۔ میں ناپاگل سی ہوں ۔ مجھے نہیں سمجھ آتا کیا بولنا ہے کیا کہتا ہے ۔ امی نے بہت سمجھایا تھا کوئی بات نہ کر نا جا کر ۔ فضول نہ بولنا ۔ لیکن میں آپ کی بیوی ہوں نا اس لیے اتنی زیادہ باتیں کر لی ہیں ۔ اپنا ہاتھ میرے ہاتھ پر رکھیں ۔ کاشف نے ہاتھ پہ ہاتھ رکھا ۔ آپ کبھی مجھے طلاق نہ دینا اچھا ۔ آپ کو اللہ جی کی قسم ہے۔اور ۔ آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔۔ کاشف نے پوچھااور ۔ ؟؟؟؟ کاشف بی۔بس طلاق نہ دینا۔۔چاہے ہر روزمجھے مار لیا کرنا ۔ میں چپ چاپ مار کھالیا کروں گی ۔ پتہ ہے میں پاگل سی ہوں۔کاشف نے کنزہ کے آنسوصاف کیئے۔ارے پاگل ایسی باتیں نہیں کرتے میری بازو پہ سر رکھ کر لیٹ جاؤ ۔ اور اب بھی ایسی بات نہ کرنا ۔ تم ہنستی ہوئی بہت پیاری لگتی ہو ۔ کاشف کے بازو پر سر رکھا۔لیٹ گئی۔اور مجھے کھانا بنانا بھی نہیں آتا ۔ کاشف مسکرانے لگا ۔ مجھے کون سا آتا ہے ایک جیسے ہی ہیں ہم دونوں۔میرے لیئے اتناکافی ہے کے میری خاطر اپنے ماں
باپ کو چھوڑ کر اس گھر میں آگئی ہو ۔ کنزہ زور سے کاشف کے سینے لگ گئی ۔ یوں ہی پیار کرنا مجھے ہمیشہ ۔ کچھ دن گزرے۔کاشف آفس سے گھر آیا ۔ کنزہ سورہی تھی ۔ کنزہ کو آواز دی۔۔کنزہ اٹھ جامیری شہزادی ۔ کچھ بنالیں کھانے کے لیئے۔کنزہ نے کروٹ بدلی ۔ میں تھک گئی ہوں آج۔کاشف نے نظر گھما کر دیکھا آج گھر بلکل بدلا بد لا سالگ رہا تھا ہر چیز سلیقے سے رکھی ہوئی تھی ۔ ہر کمرہ صاف ستھرا تھا ۔ آج گھر جنت سالگ رہا تھا ۔واہ جی واہ آج میری کنزہ نے گھر کی صفائی کی ۔ ٹھیک ہے آج پھر ہم بنائیں کے اسپیشل بر مانی ۔ کنزہ آہستہ سے بولی مجھے نہیں کھانی بر بانی ۔ مجھے قیمے والا پر اٹھا کھانا ہے۔کاشف پہنچ کر رہا تھا ۔ تو چلو پھر ریڈی ہو جاؤ چلتے ہیں کھانے کے لیے ۔ کنزہ کروٹ بدل کر بولی آپ خود جائیں اور گھر ہی لے آئیں ۔ میں تھک گئی ہوں آج ۔ کاشف پاس آیا ۔ اچھا پھر اٹھومنہ ہاتھ دھولو ۔ میں بس 15 منٹ میں آتاہوں۔اچھاسٹیں۔کاشف نے مڑ کر دیکھا جی۔میری جان ۔
کاشف پر اٹھے اللہ واسطے لیکر آنے ہیں کیا ۔ پرس تو آپ لیکر نہیں جارہے ۔ کاشف بننے لگاسوری بھول گیا تھامیر کی بندری۔اٹھ جاب ۔ دونوں ڈنر کرنے لگے ۔ کیا ضرورت تھی اتنا کام کرنے کی ۔ تھک گئی ہو نا ۔ پاگل ۔ کنزہ پیار سے بولی سارادن اکیلی گھر میں بور ہو جاتی ہوں ۔ تو سوچا کچھ کام کر لیا جاۓ۔اچھا کاشف۔۔ٹیکسٹ سیلری پہ پورے گھر کو پینٹ کروانا ہے ۔ کاشف بولا ۔ اچھامیری جان جیسا تم کہو ۔ کنزہ بر تن اٹھانے لگی ۔ کاشف نےبر تن ہاتھ سے پکڑے .. تم آرام سے بیٹھی رہو ۔ بندری اور کام کرو گی تو مجھے پتا بیمار ہو جاؤ گی ۔ میں برتن واش کر دیتا ہوں ۔ کنزہ مسکرانے لگی ۔ جاؤ جی آپ داش کر دیں میں تو پہلے ہی موٹی ہو رہی ہوں ۔ پھر نہ کہنا کنزہ موٹی ہو گئی ہو ۔ کاشف کچن میں برتن واش کر رہا تھا ۔ کنزہ کو آواز دی۔اوۓ موٹو ۔ چاۓ پیو گی یاکافی۔کنزہ موبائل دیکھتے ہوۓ بولی۔کافی بنانامیرے لیئے ۔ دونوں بیٹھ کر کافی انجوائے کرنے لگے۔کاشف سورہا تھا ۔ صبح کے 5
ہوگئے تھے ۔ کاشف جی اذان ہو گئی ہے۔اٹھ جائیں ۔ کاشف نے کروٹ بدلی۔یار سونے دو ۔ نماز پڑھ لیں پھر سو جانا ۔ آج میرے سر میں درد ہے میں نہیں پڑھنی ۔ کنزہ مسکرانے لگی ۔ کاشف کے سر پہ ہاتھ رکھ کر پھونک ماری ۔ چلو میں نے دم کر دیا ہے ۔اٹھو اب نماز پڑھ لو ۔ کاشف سے کمبل کھینچ کر اتارا ۔ کاشف آنکھیں ملتے ہوۓ اٹھا ۔ سونے بھی نہیں دیتی۔کہانا نماز پڑھ کر سو جانا ۔ دونوں نے وضو کیا فجر کی نماز ادا کی ۔
کاشف اب جاؤ بازار سے دہی لے آو ۔ کاشف غصے سے بولا ۔ تم نے کہا تھا سو جانا نماز پڑھ کے ۔ہاں تو دہی لا کر سو جانا 20 منٹ تو لگتے ہیں ۔ کاشف غصے سے کیوں سیکھا تم نے کھانا بنانا بندری کو جی دو پیسے مجھے ۔ کاشف قسم سے شرم کر میں دیے ۔اس ہفتے آپ نے مجھے 5 ہزار دیا تھا جس میں سے 6 ہزار آپ نے واپس لے لیا ہے ۔ کاشف کانوں کو ہاتھ لگانے لگا توبہ کر میں کنزہ ۔ صبح صبح جھوٹ ۔ جاتا ہوں دہی لانے ۔ کنجوسکہیں کی۔دہی لیکر آیا ۔ کنزہ نے ناشتہ ریڈی کر دیا تھا ۔ کنزہ مسکرا کر بولی اب سو جائیں کاشف ۔ کاشف نے گھڑی کی طرف دیکھا ساڑھے سات بج رہے ہیں ۔ آفس تیرے ابا جی نے جاتا ہے ۔ کنزہ بننے لگی ۔ جائیں پھر ریڈی ہو جائیں ۔ زندگی محبت ہی محبت بکھیر رہی تھی ۔ کچھ ماہ گزرے ۔ کاشف کی جاب چلی گئی ۔ دوسری کمپنی میں جاب مل تو گئی لیکن تنخواہ کم تھی۔کاشف ۔ کنزہ سے کہنے لگا ۔ میری جان اب ہم باہر کھانا کھانے
نہیں جایا کریں گے۔اے سی بھی روم والا بند کر دیں گے۔اب میں اتنا بوجھ نہیں برداشت کر سکتا ۔ میں کار بیچ کر بانک لے لوں گا ۔ کنزہ نے کاشف کا ہاتھ چوما۔میرے سوہنے دل کیوں چھوٹا کرتے ہیں آپ۔ہم دو کی بجاۓ ایک وقت روٹی کھالیں گے ۔ بناے سی کے رہ لیں گے ۔ پرانے کپڑوں سے عید میں گزار لیں گے ۔ مشکل وقت ہے گزر جاۓ گا ۔ اللہ کا امتحان ہے ۔ اس میں پریشان کیوں ہوتے ہیں میری جان میںآپ کے ساتھ ہوں نا ۔ اگر پیسے چاہیے تو میرا سارا گولڈ بیچ دیں۔میری جان ادای اچھی نہیں لگتی آپ پر ۔ کیوں اتنے پریشان ہیں اللہ پر یقین رکھیں سب ٹھیک ہو جاۓ گا ویسے بھی شکر ہے اللہ کا کیا کمی ہے ہم کو ۔ جو آپ دل مچوٹا کر رہے ہیں ۔ دیکھیں ذرا داڑھی بڑھار کھی ہے جائیں شیو کروا کر آئیں ۔اور ہاں ۔ میں نے امی کے گھر کمیٹی ڈالی ہوئی ہے ۔ اگلی کمیٹی میری نکلے گی 6 لاکھ کی ۔ وہ بھی تو پیسے ہیں نا ہمارے پاس۔کنزہ
کی محبت بھری باتیں رشتے کا احساس پل بھر میں کاشف کی تھکن پریشانی ختم کر دی ۔ یہ ہو تا ہے میاں بیوی ایک دوسرے کالباس۔اچھا آج بارش کا موسم ہے ۔ میں آپ کے لیے چاۓ پکوڑے بناتی ہوں میرے گلاب جامن کہیں کے۔ہمسفر کی محبت ساتھ ہو تو انسان ہر امتحان سے گزر جاتا ہے ۔ کچھ دن گزرے۔اللہ نے کرم فرمایا ۔ کنزہ ماں بننے والی تھی۔کاشف بہت خوش تھا ۔ گھر میں خوشیاں آنے والی تھیں ۔کنزہ اب نہ جانے کیوں ایسی ہو گئی تھی ۔ کچھ بھی چیز کہیں رکھ کر بھول جاتی ۔ ایک دن سورہی تھی ۔ کچن میں گیس سلنڈر آن تھا ۔ کاشف گھر آیا گیس کی بو محسوس ہونے لگی ۔ کچن میں جاکر دیکھا سلنڈر سے گیس نکل رہی۔کنزہ کو آواز دی ۔ کنزہ سورہی تھی ۔ کنزہ کے پاس جاکر زور سے چلایا ۔ کنزہ ۔ تیراباپ مر گیا ہے کیا یوں بے ہوش پڑی ہو ۔ کنزہ جلدی سے اٹھ گئی ۔ کیا ہوا کاشف ۔ کنزہ تھک گیا ہوں بکواس کرتے کرتے ۔
لیکن تم ہو کے کوئی اثر ہی نہیں ۔ مجھے تو لگتا سمجھتی ہو تم ۔ بھونکتا ہوں تو بھونکتا رہوں ۔ کنزہ سر جھکاۓ سن رہی تھی ۔ کاشف ہی ہوا کیا ہے ۔ کیا ہوتا ہے کنڑہ ۔ گیس لیک ہو رہی تھی ۔ اللہ نہ کرے کچھ ہو جاتا تو ۔ تم ماں بننے والی ہو ۔ تم اتنی لا پر واہ کیسے ہو گئی ہو ۔ آرام سے سوئی ہوئی ہو ۔ میں نہ آتا تو ۔ کنزہ سر جھکاۓ سنتی رہی۔کاشف غصہ کر کے چپ ہو گیا ۔ کر وجو مرضی میں تو ، کتا ہوں نا ۔ ٹی وی آن کیا ۔ نیوز سننے لگا ۔کنزہ کچن میں گئی ۔ ملک شیک بنایا ۔ کاشف کے پاس آئی ۔ یہ لیں کاشف جوس پی لیں ۔ کاشف نے گلاس پکڑا ٹیبل پہ رکھ دیا ۔ کنزہ پاس بیٹھ گئی کندھے پہ سر رکھا ۔ میرے شونا کا غصہ کم ہوا ۔ مجھے تھوڑا اور ڈانٹ لیتے نامیری جان ۔ پتہ نہیں کیوں ایسی ہو گئی ہوں ۔ آپ تھک گئے ہیں آپ جوس پی لیں پہلے ۔کاشف نے محسوس کیا ۔ کنزہ کو بخار ہے ۔ کنزہ کے ماتھے پی ہاتھ لگایا ۔۔ کنزہ میری جان تم کو بخار ہے ۔ کنزہ نے انکار میںسر ہلایا نہیں تو شونا۔کاشف کو احساس ہونے لگا۔غصے میں زیادہ بول دیا بیچاری کنزہ کو ۔ کنزہ کا سر اپنی گود میں رکھا۔اچھا سوری میری جان میں نے کچھ زیادہ ہی بول دیا ۔ میری جان خیال رکھا کرو نا ۔ کچھ ہو جاتا تو ۔ کنزہ نے کاشف کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لیا ۔ میرے کاشف آپ ہیں نا مجھے کچھ نہیں ہونے دیں گے انشاللہ ۔ اور معافی مانگتی ہوں ۔ میں اب کبھی اتنی لا پر واہ نہیں ہوں گی۔اب جوس پی لیں جان۔کاشف کا غصہ ختم
ہو گیا تھا ۔ اگر کنزہ بھی آگے سے جواب دیتی بد اخلاقی سے پیش آتی تو انجام شاید کچھ اور ہو تا ۔ کنزہ سمجھدار لڑکی تھی ۔ گھر بسانا اسے آتا تھا ۔ پھر اللہ پاک نے رحمت کی بیٹی عطا کی۔کاشف گود میں اٹھاۓ۔کنزہ کا ماتھا چوم کر بولا ۔ آئی لو یو میری جان ۔ کنزہ کی آنکھوں میں آنسو تھے ۔ کاشف مجھے اتنی عزت محبت دینے کا شکریہ ۔ ورنہ آجکل ہر گھر میں کتنے فساد ہیں سب جانتے ہیں ۔ کیا کوئی اور بھی ہو سکتا ہے جو ہماری طرحایک دوسرے کالباس بن کر ایک دوسرے کا ہر سانس ساتھ نبھاتے ہیں ۔ وہ دونوں مسکراتے ہوئے زندگی کے سفر پر رواں رہے ۔ زندگی بہت ہی مچوٹی سی ہے ۔ مچھوڑ دیں نا لڑائی جھگڑے نفر تیں فساد ۔ ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر کنزہ اور کاشف بن جائیں ۔ اللہ ہر مشکل کو آسانی میں بدل دے گا ۔ انشاللہ انشاء اللہ امید ہے دوستواکنزہ اور کاشف کی محبت بھری داستان آپ کو پسند آئی ہو گی ۔
اللہ حافظ ۔۔۔۔ !