آج کے دن کے لئے جیتی رہی ، اپنے رب سے دعائیں مانگتی رہی کہ میرے دونوں بچے پڑھ لکھ جائیں اور کسی عزت دار مقام پر پہنچ جائیں ۔ وہ عزت جو غربت کے ہاتھوں ہم نے کھو دی تھی ۔ اپنے بچوں کو بھی سمجھاتی تھی کہ چاہے بھو کا سوناپڑے مگر پڑھنے سے بھی نہ چرانا ۔ ہم کو مفلسی کی ذلت اور غربت کی دلدل سے نکال کر اگر کوئی سیڑ ھی اوپر لے جانے والی ہے ‘تو وہ تم لوگوں کی محنت سے پڑھائی ہے۔
بچے میری بات کو سمجھنے یانہ سمجھتے لیکن بے چارے بھو کے پیاسے اسکول بلا ناغہ ضرور جاتے تھے ۔ مجھے اس بات کا بھی قلق تھا کہ میرے پڑھنے کی عمر تھی ، والد اس دنیا سے چلے گئے اور میں صرف پانچویں تک تعلیم حاصل کر سکی ۔ ہوش سنبھالا ، بڑی تین بہنوں کو جوان پایا ۔ بھائی کوئی تھانہیں اور گھر کا بوجھ اماں کے کمزور کندھوں پر تھا ۔مرد ہو تو دو وقت کا چولہا جلتا ہے ، ہمارے گھر تو ہفتوں نہ جلتا ۔ ماں غریب کڑھائی کرتے کرتے آنکھوں سے ہاتھ دھو بیٹھی ، تب ں بھی غربت کو گھر سے دھکیل نہ سکی ، بے چارگی کا در کھلا ہی رہتا ہے ۔ غربت ہو اور رکھوالا بھی ابدی نیند سور ہا ہو تو اس گھر میں جوان لڑکیوں کا ہو نا باقیمتی شے کارستے میں پڑارہ جانا ، ایک ہی بات ہے ۔ ماں کب تک حفاظت کرتیرشتہ کوئی آجاتا تو لوگ غربت سے ڈر کر دوبارہ نہ آتے ۔ جب صورت یہ ہو کہ کنوار پن کے سارے خواب خزاں کے پتوں کی طرح بابل کے صحن میں اڑنے لگیں تو غریب کی بیٹیاں یاکسی کے ہتھے چڑھ جاتی ہیں یا یہ پھر آبدار موتی کارپچ کے ٹکڑوں کی مانند آتے جاتے راہ گیروں کے پیروں میں چھنے لگتے ہیں ۔
وہی ہواجس کاماں کو ڈر تھا ۔ حالات سے تنگ آکر ایک کے بعد ایکدونوں میری بڑی بہنیں گھر سے بھاگ گئیں ، تیسری ماموں کے لڑکے کو پند آگئی ۔ ایک میں گھر میں اندھی ماں کی لاٹھی رہ گئی ۔ کچھ دنوں بعد ماں اور بہن نے صلاح مشورہ کر کے مجھ کو خالہ کے بیٹے سے بیاہ دیا ۔ یہ رشتہ گھر کا تھا ، ماں کو داماد کا آسرا مل گیا ۔ بے شک داماد کو بول کی چائوں کہا جاتا ہے ۔ میر امیاں سیدھا سادہ تھا ۔ خالہ نے اماں پر احسان کیا تھاجو مجھ کو بہو بنالیا تھا ۔ یتیم لڑکیوں کے بخت جلد سیدھے نہیں ہوتے ۔ خالہ کے اس سیدھے سادے پوت کے پائوں اماں شاید پالنے میں نہ دیکھ پائی تھیں ۔ جلد ہی اس نے گل کھلا یا اور پڑوسن کی لڑکی کو لے اڑا ۔ اس کارنامے کے محلے بھر میں ڈنکے بجئے گے ۔ میری شادی کو ڈھائی برس ہوۓ تھے اور میں دوسرے بچے کی پیدائش پر ماں کے گھر آئی ہوئی تھیکہ میرے پیچھے طلاق نامہ پہنچ گیا ۔ یوں لوٹ کر شوہر کے گھر جانانصیب نہ ہوا ۔ خالہ معافی تلافی کو آئی ، ننھے پوتے کو دیکھا ، اپنے بیٹے کو کوسا مگر میں نے کوئی شکوہ نہ کیا ۔ اب کچھ کہنے کا کیا فائدہ تھا ، طلاق نامہ مل چکا تھا ۔ شوہر نے اپنی من پسند لڑ کی سے شادی کر لی تھی ۔ دو بچوں کے ساتھ میں ماں کے گھر میں پناہ گزین ہو گئی ۔ اس واقعے کو سال بھی نہ گزرا تھاکہ تیسرے نمبر والی بہن جس کا شوہر پولیس میں تھا ، ڈاکوئوں کے ساتھ پولیس مقابلے میں مارا گیا ۔ وہ بیوہ ہو کر گھر آگئی ۔ اس کے بھی دولڑ کے تھے ۔ میں اس کو سمجھاتی کہ کیوں روتی ہے ۔
جہاں میرے پل رہے ہیں ، تمہارے بھی دو بچے پل جائیں گے ۔ جس نے پیدا کیا ، وہی رزق بھی دیتا ہے ۔ میں ایک کو بھی میں کام کرتی ہوں ، تم بھی کسی گھر کام کر لینا ۔ یہ محنت مزدوری ہےاس میں شرمانا کیسا … ! جس گھر میں کام کرتی تھی ، وہاں تین افراد تھے۔ماں ، باپ اور ایک جوان بیٹا جس کا نام ناظر تھا ۔ شروع میں مجھ سے ناظر کلام نہیں کرتا تھا اور نہ کوئی علاقہ رکھا ۔ کچھ دنوں بعد وہ سلام کرنے لگا اور اسے مجھ سے کام بھی پڑنے لگا ۔ رفتہ رفتہ گلے پڑنے لگا ۔ میں ہیں سال کی تھی ، صورت بھی اچھی تھی ۔ مفلسی کے بوجھ سے اتنی دبی ہوئی تھیکہ بات بھی نہ کر سکتی تھی ۔ دوبارہ گھر بسانے کا تصور کیا کرتی ۔ بڑے میاں اور بڑی بی دونوں اپنے بیٹے کے بارے میں فکر مند رہتے تھے کیونکہ وہ ان کا اکلوتانور چشم قاہ شادی ہوئی تھی ، بیوی نے بے وفائی کی اور طلاق ہو گئی ۔ اس بات کا ناظر کو صدمہ تھا ۔ وہ اب کسی سے گھلتے ملتے نہ تھے ، اجنبی عورتوں سے بات نہ کرتے اور دوسری شادی کے نام سے گھبراتے تھےایک روز ناظر نے مجھ سے شادی کے لئے کہا تو میں ششدر رہ سے کے تو گئی ۔ وہ بولا ۔ صوفیہ ! میں کئی دنوں سے تمہارا مشاہدہ کر رہا تھا ۔ مجھے لگتا ہے کہ تم جیسی لڑ کی ہی میرے لئے موزوں ہوسکتی ، لڑکی ہے ۔ یہ سن کر کانوں پر اعتبار نہ آیا ۔ میں سمجھی کہ وہ میرامذاق اڑارہا ہے مگر اس نے اپنے والدین کی قسم کھا کر کہا کہ وہ پچ کہہ رہا ہے ۔ یہ کوئی مذاق کی بات نہیں ہے ،وہ مجھ ہی سے شادی کر نا چاہتا ہے ۔ میں نے اپنے دونوں بچوں کی مجبوری بتائی ، اس کا ارادہ نہ بدلا ۔ اس نے اپنے والدین کو بھی قائل کر لیا ۔ اگرچہ وہ بالکل بھی ایک ملازمہ کو بہو کے روپ میں نہ دیکھنا چاہتے تھے لیکن ناظر نے دھمکی دی کہ وہ گھر چھوڑ کر چلا جاۓ گا ۔ اس کی والدہ تجھی مارے باندھے سے میری ماں کے تھی پاس آئیں۔ماں نے مجھے سمجھایا کہ قسمت کا دروازہ کھل رہا ہےتو کیوں ڈرتی ہے ،
ایساموقعہ پھر ہاتھ نہیں آۓ گا ۔ بیٹے کی ہٹ دھرمی سے ہونے کو یہ شادی ہو گئی مگر اس کے والدین نے مجھ کو دل سے قبول نہ کیا ۔ میرے بچے ان کو خار کی طرح کھلتے تھے ۔ ان کا وجود وہ اپنے گھر میں برداشت کرنے پر تیار نہ تھے ۔ میرے بچوں کا کھانا پینا ، بنسنا بولنا ، کھیلتاتک ان کو نہیں بھاتا تھا ۔ میری ساس کا کہنا تھا کہ ان بچوں کو ان کے باپ کے حوالے کردو .جب ان کا باپ زندہ ہے تو ہم کیوں ان کو پالیں۔اگر یہ یتیم ہوتے م تو ہم ترس کھا کر ان کے سروں پر ہاتھ رکھ لیتے ۔ یہ شور کرتے ہیں ، سارے گھر میں دوڑتے ہیں اور ہم بوڑھوں کا سکون بر باد کرتے ہیں ۔ ان لو گوں نے ایک دن بھی میرے بچوں کو چین انہیں لینے دیا ۔ ہوتے ہوتے یہ ٹینشن اتنی بڑھ گئی کہ میرے بچوں ں کو بہن آکر لے گئی ۔ مجھ کو بھی سمجھا یا کہ تم اپنا گھر بر باد نہ کروتیرے بچوں کو میں پال لوں گی ۔ سوچا تھا اتنی بڑی قربانی دی ہے تو کچھ دن سکون سے بی لوں گی مگر بچوں کا تو بہانہ تھا ۔ دراصل ساس مجھ کو غریب اور پچ سمجھتی تھی شاید غربت آدمی کو پچ بنا پیچ ی پینچ بڑ ویتی ہو گی حالانکہ دولت آنی جانی چیز ہے ۔ پہلے ہم بھی خو شحال اور عزت دار تھے پھر نہ اباجان رہے نہ دولت رہی اور نہ عزت رہی ۔ یہ تو وقت وقت کی بات ہے ۔میں نے سب جتن کرلئے ، ساس کا دل نہ جیت سکی ۔ میں اپنی سی کر کے ہار گئی ۔ ایک دن اس نے اپنے جوان بھتیجے کو میرے بار کمرے میں بھیج دیا ۔
اس وقت میں سورہی تھی ۔ مجھ کو نہیں معلوم گھر کا فیوز از خود اڑا تھا کہ جان بوجھ کر نکالا گیا تھا ۔ بجلی چلی گئی تھی ، گھپ اند ھیرا ہو گیا تھا ۔ خدا جانے یہ شخص کس ارادے اندھیرا سے میرے کمرے میں آیا تھا ۔ملازم نے ناظر کے کہنے سے فیوز لگایا ۔ اس وقت ناظر گھر میں داخل ہوئے ۔ انہوں نے دیکھا کہ کوئی مرد چھلانگ مار کر میرے کمرے سے نکلا اور دوڑتا ہوا گیٹ سے باہر نکل گیا ہے ۔ ناظر نے اس کو آواز دی مگر وہ نہ رکا اور نہ ہی اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا ۔ یہ سوچی سمجھی سازش تھی ۔ میں نے لاکھ قسمیں کھائیں ، ناظر کو میری معصومیت کا یقین نہ آیا ۔ واہ مرد کی ذاتایک بار شک ہو جاۓ تو ان کے دل کے نینے کا بال نکلتا ہی نہیں ۔ پہلی بیوی کی بے وفائی سے ڈسے ناظر کا ذہنی حال ایسا تھا جیسے کہ سانپ کا ڈسار سی سے بھی ڈرتا ہے ۔ شکی مزاج کو سمجھانا بہت ۔ مشکل ہو تا ہے ۔ بے شعور جان لے ۔ باشعور کا گھر بر باد ہو جاتا ہوتا ہے ۔ ناظر نے میری جان تو نہ لی مگر ہماراگھر ضرور بر باد ہو گیا ۔ انہوں نے میری قسموں کا اعتبار نہ کیا اور مجھے میکے بجوادیا ۔ساس نے میری غیر موجودگی میں کچھ اس قسم کی باتوں سے ان کے کان بھرے کہ مجھ کو طلاق دلوا کر دم لیا ۔ وہ ناظر کو ا کثر اس قسم کی باتیں کہتی رہتی تھیں کہ بیٹا ! طلاق یافتہ عور تیں حچپ چپ کر اپنے پہلے شوہر وں سے ضر ور ملتی ہیں ، خاص طور پر اگر ان کے بچے ہوں ۔ میں ماں کے گھر بیٹھ گئی ۔ اپنے بچوں کو گلے ھ سے لگایا ، آنسو تقم گئے ، دل کو راحت ملیوہ میری جدائی سے نڈھال تھے ۔ میں ان کے بچھڑنے سے یامسال تھی ۔ کیا بتائوں کہ میں نے کیا محسوس کیا ۔ میں نے خدا کا شکر ادا کیا کہ طلاق کے بدلے مجھ کو میرے بچے واپس مل کئے تھے جو ماں ، پ کے ہوتے یتیمی کا در دسہہ رہے تھے۔اسی سوچ سے سکون پالیا گھر بر باد ہوا مگر میرے لخت جگر میری بانہوں میں آگئے ہیں ۔
اب میں مجھ کو یاد کر کے بلکیں گے نہیں اور میں ان کو پڑھائوں گی ۔ یہ کر ۔یہ تو بعد میں پتا چلا کہ یہ واقعہ کیسے ہوا تھا ۔ ناظر نے نکاح کے وقت قیمتی زیورات دیۓ تھے جو اس کی پہلی بیوی نچوڑ گئی تھی ، وہ بھی اور نئے بھی بنوا کر مجھ کو زیورات سے لاد دیا تھا ۔ میں ان زیورات کو الماری میں رکھتی تھی ۔ میری ساس کو اس بات کا بڑا قلق تھا کہ عورت جو ان کے گھر کی ماسی تھی اور جھاڑ و پونچا کرتی تھی ، اس کی جھولی میں بیٹے نے اتنے سارے گہنے ڈال دیۓ ،چاہتی تھیں کسی طرح یہ وہ مجھ سے لے لیں مگر ناظر کے خوف سے واپس نہیں لے سکتی تھیں ۔ انہوں نے اسی وجہ سے میرا میکے جانا بھی بند کرادیا کہ زیورات میکے والوں کو نہ دے دوں ۔ یوں میں بچوں کی صورت دیکھنے کو ترسنے گی۔اس روز فیوز انہوں نے نکلوایا اور الماری کی چابیاں پہلے سے میری سنگھار میز کی دراز سے کھسکالی تھیں ،پھر اپنے بھتیجے کو بلوا کر یہ منصوبہ بنایا کہ جب اند ھیرا ہو جاۓ گا ۔ ٹارچ کی روشنی میں الماری سے زیورات نکال لے بعد میں وہ مجھ پر الزام دھر تیں کہ زیور اس نے میکے والوں کو دے دیئے ہیں ۔ خدا کی کرنی ، عین وقت پر ناظر بابر سے گھر میں آۓ۔اس کی گاڑی کی آواز سن کر ساس کا بھتیجا چھلانگ مار کر میرے کمرے سے نکلا اور دوڑتا ہوا کو ٹھی سے نکل گیاوہ یہی سمجھا کہ اندھیرا ہے تو ناظر نے اس کو نہیں دیکھا ہے ۔ واقعی ناظر نے ایک شخص کو میرے کمرے سے بھاگتے ضرور دیکھا تھا لیکن اس کا چہرہ نہیں دیکھ پائے تھے ۔ فیوز لگوا کر وہ کمرے میں آۓ ۔ میں جاگ گئی تھی ، الماری بند تھی اور زیور بھی جوں کے توں موجود تھے ، تجھی ان کو یہ شک ہو گیا کہ کوئی مرد مجھ سے ملنے آیا تھا ۔ جلتی پر تیل کا کام میری ساس کے اس بیان نے کیا لنصرکہ چونکہ ہم صوفیہ کو گھر سے باہر اکیلے نہیں نکلتے دیتے ، اس کا پہلا شوہر اس سے ملنے آیا ہو گا ۔ اس ’ ’ ہوگا ‘ ‘ کے مفروضے نے ناظر کا دماغ گھما دیا ۔ جب وہ پوچھتے ۔ تمہارے کمرے میں کون آیا ۔ تھا اور فیوز کس نے نکالا تھا ، میں ان کا منہ دیکھتی رہ جاتی تھی ۔ پچ بتادو ، میں کچھ نہ کہوں گا ، معاف کر دوں گا مگر جھوٹ مت بولو اور ساس کہتیں ۔ اگر چور تھاتورات کے دس بجے کیوں آدھمکاکہ چونکہ ہم صوفیہ کو گھر سے باہر اکیلے نہیں نکلتے دیتے ، اس کا پہلا شوہر اس سے ملنے آیا ہو گا ۔ اس ’ ’ ہوگا ‘ ‘ کے مفروضے نے ناظر کا دماغ گھما دیا ۔ جب وہ پوچھتے ۔ تمہارے کمرے میں کون آیا ۔ تھا اور فیوز کس نے نکالا تھا ، میں ان کا منہ دیکھتی رہ جاتی تھی ۔ پچ بتادو ، میں کچھ نہ کہوں گا ، معاف کر دوں گا مگر جھوٹ مت بولو اور ساس کہتیں ۔ اگر چور تھاتورات کے دس بجے کیوں آدھمکاجبکہ ابھی ہم جاگ رہے تھے۔اس کو پہلے سے کسی نے آنے کی راہ دی اور وہ صرف ثوبیہ کے کمرے میں ہی کیوں گیا ؟ اور بھی تو کمرے تھے ، ادھر نہ گیا ۔
یہ کیا ماجرا ہے ؟ خیر انہوں نے جو کہا جس طرح کہا ، ناظر کا دل میری طرف سے پھیر دیا اور انہوں نے مجھے طلاق دے دی ۔ اب ایک اند ھی ماں اور بیوہ بہن تھی اور میں دو بار کی طلاق یافتہ … بمارے چار بجے اور ہم سب کا ایک خدائی آسرا تھارات کو سوتے میں سوچتی کہ صبح کے لئے کچھ نہیں ہے ، بچے بھوکے ساہے ، کے بغیر ناشتے کے کیسے اسکول جائیں گے ؟ ان کا فاقہ ہو گا تو کیسے پڑھیں گے مگر شکر بے اس رب کریم کا کہ اس نے کرم کیا ۔ ہم بھو کے سو جاتے تو وہ صبح دم کہیں سے رزق کا انتظام کر دیتا ۔ بھوکے اٹھتے مگر بھی بھو کے سوتے نہیں ۔ وہ غیب سے روکھی سوکھی مہیا کرتارہا ۔ یہ سوچ کر کہ ہم دونوں بہنیں زندگی کے دکھ سمیٹتی رہیںوہ لوگ جو بھول چکے تھے کہ ہم ایک آفیسر باپ کی بیٹیاں ہیں ، ان کو پھر سے یاد آ گیا کہ ہمارا باپ آفیسر تھا ، کبھی بم خو شحال تھے ۔ دو بار خو شحالی نے ہمارے رشتے داروں کو بھی ہماری یاد دلا دی ۔ وہ ہمارے گھر آنے جانے لگے اور ہمیں اپنی تقریبات میں بلانے لگے ۔ ہمارے بچوں کی ہمت نے معاشرے میں کھوئی ہوئی عزت دلادی