ایک آدمی اپنے گاؤں والوں سے بہت تنگ آ گیا اور سوچا کہ اپنا گاؤں ہی تبد یل کر لیا جائے ۔ وہ کسی اچھے گاؤں کی تلاش میں نکل کھڑ اہو ا ۔ ایک گاؤں کے پاس پہنچاتوسامنے ایک حکمت بھرے بزرگ کو پایا ۔اس نے بزرگ سے پوچھا کہ یہ گاؤں کیسا ہے ؟ اس کے باسی کیسے ہیں ؟ بزرگ نے اس سے پوچھا کہ تم کیوں پوچھ رہے ہو ؟
اس شخص نے بتایا کہ میں اپنے گاؤں والوں سے بہت تنگ ہوں اور اپنا گاؤں چھوڑنا چاہتا ہوں ۔میرے گاؤں کے لوگ بہت متکبر ہیں اور تعصب کا شکار ہیں ۔ مجھے عاجز لو گوں کی تلاش ہے ۔ اس بزرگ نے بولا کہ جاؤ اپناراستہ ناپو کیونکہ ادھر کے لوگ بھی بہت برے ہیں ۔ یہاں بھی بالکل ویسے ہی لوگ رہائش پزیر ہیں ۔وہ کافی مایوس ہو ا اور آگے نکلا گیا ۔ بزرگ ادھر ہی بیٹھاتھا کہ ایک اور آدمی کا ادھر سے گزر ہوا ۔ اس نے بھی بزرگ سے جا کر پوچھا کہ ادھر کیسے لوگ رہتے ہیں ؟ میں اپنی رہائش کے لیے کوئی اچھا گاؤں تلاش کر رہا ہوں ۔بزرگ نے اس سے بھی یہی سوال کیا کہ جو گاؤں تم چوڑ کر آرہے ہو وہاں کے لوگ کیسے تھے ؟ اس آدمی نے بتایا کہ بہت اچھے لوگ تھے ، ملنسار اور ہد رد ۔ بزرگ نے اسے بولا کہ یہ جو پگڈنڈی دیکھ رہے ہو بس اس پر چلتے جاؤاور تھوڑا دور جا کر میرے گاؤں میں داخل ہو جانا ۔
یہاں کے لوگ بھی بہت اچھے ، ملنسار ، خوش اخلاق اور ہمد رد ہیں ۔ وہ آدمی خوشی خوشی اس کے گاؤں روانہ ہو گیا اور وہیں رہائش پزیر ہو گیا ۔ حاصل سبق انسان حبیساخو د ہو تا ہےاسے دنیا اور زمانہ بالکل ویسے ہی نظر آتے ہیں۔اگر کسی کی دنیا اجڑی ہوئی ہے تو اس میں لو گوں کا ہاتھ بہت کم اور اس کا اپناہاتھ بہت زیادہ ہو تا ہے ۔ برا آدمی کیونکہ خود بد اخلاق در شکی ہو تا ہے وہ ہر ایک کو اپنے جیسا گمان کر تا ہے اوراور کسی پر اعتبار نہیں کر سکتا ۔ کسی انسان کو اس وجہ سے ہر گز بے وقوف مت گر دانو کہ وہ تمہاری ہر بات پر یکدم یقین کر لیتا ہے ۔ جو انسان اور لوگوں پر فورا بھر وسہ کر تا ہے اس کی وجہ اس کی اپنی پاک دامنی اور نیک نیتی ہوتی ہے ۔جو خود کسی کے لیے گڑھے نہیں کھو د تاوہ دوسرے انسانوں سے بھی اس کی ہر گز تو قع نہیں کر سکتا ۔ کوئی انسان بذات خود جتنا قابل اعتبار ہو گا ، اتناہی بے دھڑک دو سروں پر بھی بھر وسہ کرے گا ۔ ایسے میں اس کا بھروسہسو بار ٹوٹنے سے وہ نہیں ہار تا بلکہ اس کے ساتھ خدا کے محافظ دن رات اس کے لیے ہر طرح کے اسباب بنانے میں جتے رہتے ہیں ۔ جو انسان در در کی ٹھو کر میں کھاۓ اور ہر ایک کے آگے ہاتھ پھیلا رہا ہو ،
اس نے دوسروںکی حق تلفی کر کے ایسا در دناک انجام کمایا ہو تا ہے ۔ جو کوئی اپنے گھر سکون سے بیٹھ کر روزی روٹی کمالے اور اس کی زندگی پر سکون ہو ، اس کے کرم اس کے کام آۓ ہوتے ہیں ۔ انسان کو ہمیشہ کوشش کرنی چاہیے کہاپنی نیت درست رکھے ۔ انسان کی نیت ٹھیک ہو تو سو بار دھو کہ کھا کر سنجل سکتا ہے کیونکہ سنھالنے والا صرف نیت دیکھتا ہے اور وہ تو دلوں کے حال سے بخوبی واقف ہے ۔