شازیہ کے ذہن میں یہ بات تھی کے شاید شادی صرف نفسیاتی خواسات کی تعمیل کا نام ہے وہ اپنی شادی کی رات عرس جوڑا پہنے ہوۓ بیٹھی تھی اپنی گود میں دہرے مہندی والے ہاتھوں کو مسلسل دیکھ رہی تھی اتنے میں دروازہ کھلنے کی آواز آئیشازیہ نے سر اٹھا کر دیکھا اسلام علیکم احمر نے کمرے میں داخل ہوتے ہی
اسلام کیا شازیہ کے دل کی دھڑکن تیز ہو گئی اس نے اپنے دھڑکتے ہوۓ دل کے ساتھ وعلیکم السلام کا آہستہ سے جواب دیا احمر نہ آہستہ سے اپنی نئی نویلی دلہن کا گو تلھٹ أشایااور اس کے حسین چہرے کا دیدار کیا جسے اس نے چند گھنٹوں پہلے خود پر حلال کیا تھا احمر نے اپنی شیروانی کی جیب میں سے ایک ڈبیا نکالی جس میں انگو ٹھی موجود تھی جو اس نے موں دکھائی دینے کے لئے خریدی تھی اس نے انگو ٹھی نکالی اور پہنانے کے لئے شازیہ کا ہاتھ پکڑاجو ہی احمر نے شازیہ کا ہاتھ تھاما تو اسے حیرت کا ایک جھٹکا لگا آپ کو تو بہت تیز بخار ہے احمر نے پریشانی سے کہا تھکاوٹ کی وجہ سے ہو گیا ہو گا
اب اس کی آواز میں نقابت تھی آپ اپنا لباس تبدیل کر لیں میں آپ کے لئے دوائی کاتا ہوں امر کو اس کی بہت فکر ہو رہی تھیشازیہ ڈریسنگ روم میں گئی اس نے اپنا زیور اتارا اور وم بھاری بھر کم ڈریس تبد میں کر لیا چیرے سے میک آپ صاف کر کے ساف شفاف کھری رنگت والا چرو لے کر باہر آگئی امر نے شازیہ کو بیڈ پر بٹھایا اور بخار کی دوائی دی آپ انشاء اللہ صبح تک ٹھیک ہو جائیں گیاب آپ سو جائیں آپ کو آرام کی ضرورت ہے شازیہ نے چونک کر احمر کی طرف دیکھا ایسے کیا دیکھ رہی ہیں ۔۔۔ اور آپ ۔۔ میں کہا امر نے ہلکا سے قہقہ لگایا آپ کی خواہش شازیہ نے سمھتے ہوۓ کچھ کہنا چاہا اے میرے نصف بہتر میں انسان ہوںکوئی وحشی درندہ نہیں ہوں جو اپنی خواسات کی تحمیل کے لئے اپنی بیوی کی تکلیف کو نظر انداز کر دوں احمر نے شازیہ کا ہاتھ تھامتے ہوۓ کہا کے شادی صرف نفسیاتی تحمیل کا ذریعہ تو نہیں ہے ایک احساس کا رشتا ہے جس میں میا بیوی ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں