ٹرین ابھی اسٹیشن پر ہی کھڑی تھی کہ سامنے والی سیٹوں پر ایک فیملی آ کر بیٹھ گئی۔ایک بوڑھی عورت جس کیے کو دمیں ایک تین سال کا بچہ تھا ۔ ایک جواج لڑکی جو دوسال کے بچے کو گود میں اٹھاۓ ہوئی تھی ایک جوان مر دجو شاید اس بوڑھی عوت کابیٹا اور اسے جوان لڑکی کا شوہر قلابعد میں میرے اندازے کے تصدیق ہو گئی
اس کے ساتھ ایک چار پانچ سال کیچھوٹی بچی جس کی چمکدار آنکھیں بتارہی تھی کہ وہ بہت شرارتی ہے ہے ۔ میں حسب معمول کھڑکی کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھا تھابچے میرے سامنے والی سیٹ پر بیٹھ کر کھڑکی سے باہر جھانکنے لگ گئے اورانکی دادی ارج کے ساتھ بیٹھ گئی ان کے ساتھ وہ جوان لڑکی اور اس کاشوہر بیٹھ گیا ۔ بچے بہت پیارے تھے میں نے انہیں اپنی طرف متوجہ کرنے کی کو شش کیے تو تین سال کامیرے پاس آگیاتا کہ اسے کھڑکی میں سے پوری طرح باہر جھانکنے کاموقع مل سے کیونکہ دوسری طرف اس کے پانچ سالہ بڑی بہن کھڑکی پر قبضہ جمائے بیٹھی تی تھی۔ٹرین روانہ ہوئے تومیں باہر کے منظر دیکھنے میں مگن ہو گیا ۔ پتوکی سے پہلے ہی ٹرین کسی وجہ سے شہر سے باہر رکیے تو بہت سے خوانچہ فروش چیز میں بیچنے کے لیے ٹرین کے پاس آگئے۔اس آدمیاور تین بچوں میں تقسیم کیے اور پانچواں خود پہلنے گیا ۔
اس کے والدہ کی طرف دیکھتی رہی لیکر نہ جانے کیوں اس نے اس دفعہ پھر والدہ کو نظر انداز کر دیا ۔ وہ بوڑھی عورت مایوس ہو کر کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی ۔ چوٹی پی نے دادی کے طرف جوس کیا کہ ای میر اجوس پے لو تو عورت نے آنکھوں میں آنسو بھر کر آہستہ سے کہاکہ بٹاتم پور مجھے لے کر دیناہو تاتو تمہارے پاپالے دیتے ۔ یہ سب دیکھ کر مجھے بہت غصہ آیا اور میرا پارہ ایک دم چڑھ گیا ۔ اس آدمی اس آدی کو بچے کے ساتھ کھیلتے دیکھ کر ہمارے ساتھ بیٹھی عورت نے کہا کہ یہ عمر کتنی اچی ہے اور والدین بچوں کاکتنا خیال کرتے ہیں لیکن بعض دفعہ اولادجوان ہو کر ماں باپ کا خیال نہیں کرتی۔اس پراس آدی نے کہانہیں جیے جو حلالی ہوگاوہ تواپنے ماں باپ کا خیالضرور کرے گا اور کوئی بد بخت ہی ہو گاجواپنے ماں باپ کا خیال نہیں کرے گا ۔ اس کی یہ بات سن کر میری برداشت جواب دے گئی اور میں نے کہابھائیے صاحب ناراض نہ ہو نا آپ صرف گفتار کے غازی لگ رہے ہیں ورنہ کردار سے تو مجھے مجھے آپ بھی بد بخت ہی لگے ہیں ۔
پہلے بھٹے لیتے ہوۓ بھی آپ نے اپنی ماں کو نظرانداز کیا اور اب جوس لیتے وقت بھی آپ نے اپنیبیوی بچوں کو سامنے رکھا اپنی ماں کے لیے ایک جوس کاڈبہ لینے کی توفیق نہیں ہوئے اور وہ بے چاری اپنے آنسو چھپانے کے لیے منہ دوسری طرف کر کے بیٹھی ہیں ۔ میری بات سنتے ہی اس آدمی کارنگ فق ہو گیا اور اس سے کوئی جواب نہ بن پایا ۔ اس کے ماں کہے گی کوئی بات نہیں اللہ سلامت رکھے میرے میاں کو جب تک وہ ہے مجھے کوئی پرواہ نہیں شاید میرےنہیں رہاکہ رہا کہ میں بھی انکے ساتھ سفر کر رہی ہوں ۔ اس کے بعد باقی ایک گھنٹے کے سفر میں وہاں بالکل خاموشی چائیے رہی اور میں نے اس آدمی کا جھکاسر دوبارہ اٹھتانہ دیکھا ۔
ہم لوگ ماں کی عظمت پر تو بہت باتیں کرتے ہیں اور ماں باپ کا خیال بھی رکھتے ہیں لیکن شادی کے بعد بہت سے مر د حضرات کار و بیہ اپنے ماں باپ سے بدل جاتا ہے اور اس کے لیے پہلی ترجیحانکی بیوی اور بچے ہو جاتے ہیے۔والد میں کیے ساری محبت ۔ ساری شفقت اور ساری عمر کی ریاضت بھلادی جاتی ہے ۔ ہماری وہ روایات آہستہ آہستہ آہستہ دم توڑ رہی ہیں جس میں والدین اپنے آخری وقت تک گھر سربراہ رہتے ہیں ۔ اللہ کاشکر ہے کہ ابھی بہت سے گھرانے ایسے ہیں جہاں والدین سے اج کامقام نہیں چھینا جاتالیکن جیسے جیسے ہم ترقی کی منازل طے کر رہےہیں ویسے ویسے ہمارے ملک میں اولڈ ہاوسز کی تعدادمیں اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بد دعا دی ہے اس شخص کو جو اپنے ماں باپ کے بڑھاپے میں خدمت کرکے جنت نہ کمائے ۔ کتے بخت ہیں وہ لوگ جواپنی جنت کو خوداپنے ہاتھوں سے اولڈ ہاؤس میں چھوڑ آتے ہیں۔اللہ ہمیں ایسی ترقی سے بچاۓ