میرے شوہر میں بظاہر کوئی کمی نہ تھی بس یہ کہ نہایت شکی مزاج کے تھے

مجھ سے وہ یوں تو محبت کرتے تھے لیکن کب اور کیسے بہن کی عجیب و غریب بیماریاں ان کے اندر جنم لےگی رفتہ رفتہ ہماری محبت کو ان دیکھی ہے دیمک کی طرح چاٹ لیاشادی کے شروع دنوں میں علم نہ ہو سکا کہ وقاص ایک شق یہ انسان ہے میں اس کی پرکشش شخصیت پر فدا ہو گئی تھی کیا خبر تھی کہ اس حسین عمارت کی جڑوں میں کچرا بھرا ہوا ہےمیرے شوہر میں بظاہر کوئی کمی نہ تھی بس یہ کہ نہایت شکی مزاج کے تھے یہ کہوں تو برا نہ ہوگا کہ شک اس کی رگ میں شامل تھا کچھ دنوں تک حالات نارمل رہے نئی نئی شادی ہوئی میں ان کو پاک اتنی خوش تھی جیسے دو جہاں کی دولت مل گئی ہو وہ بھی ملا خیال رکھتے تھے مجھ پر جان فدا کرتے تھے جو بات منہ سے نکلتی تھی

وہ پوری کرتے تھے ہمیں جیسے کہ ہم ایک دوسرے کے لئے بنے ہواس رشتے میں دراڑ پڑنے لگی وہم ایک جان لیوا دشمن کی طرح ہر دم ساتھ رہنے لگا جان کا دشمن بن کر پیچھے پڑ گیا ایک روز انہوں نے کہا ہمارے دفتر میں پارٹی ہے اور میری سب سے اچھی شرٹ میں تھی پڑی ہے کیا تم اس کو دھو دو گی ہاں کیوں نے آپ میری فرمائش پوری کرتے ہیں تو کیا میں آپ کی فرمائش پوری نہیں کر سکتی میں فورا اٹھی اور کپڑے دھونے چلی گئی میلے کپڑے غسل خانے میں پڑے تھے اور واشنگ مشین بھی وہی تھییہ صبح کا وقت تھا اور چھٹی کا دن تھا

وہ آرام سے اپنے بستر پر لیٹے ہوئے تھے میں نے میلے کپڑوں کی ٹوکری الٹ دی اور پسندیدہ شہر تلاش کرنے لگیں تو یہ خیال آیا کیوں نہ مشین ڈالو اور سارے ہی کپڑے دھو دو یہ خیال آتے ہی میں نے واشنگ مشین میں پانی بھرا اور سوچ آن کر دیا آدھے گھنٹے میں سارے کپڑے دھو لگی ڈر تھا کہ میری غیر موجودگی کو وقاص محسوس کرے گا پکارنے لگے گا مگر اس دوران امن رہا انہوں نے ایک بار بھی نام لے کر مجھے نہیں پکارامیں نے سکون کا سانس لیا کہ یہ کام اطمینان سے ہوگی اوقات کی چھٹی والے دن گھر کے کام نہیں ہو پاتے تھے خاص طور پر کپڑوں کی دھلائی کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ میں سارا وقت ان کے پاس بیٹھے رہو کپڑے دھونے کے بعد میں نے انہیں باسکٹ میں ڈالا اور اسی پر پھیلانے کے لیے چھت کی طرف چلی گئی ابھی پہلی سیڑھی پر قدم رکھا تھا کہ وہ جاگے اور لگے آوازیں دینے عائشہ عائشہ تم کدھر ہو یا اللہ تو کیا یہ سوئے ہوئے تھے جو اب آنکھ کھل گئی اور بچوں کی طرح بلکنے لگے ہیںابھی آئی میں نے کپڑوں سے بھری بالٹی وہی رکھتی اور ان کی طرف دوڑی کہاں او بھائی کیا کر رہی ہو اتنی دیر سے غائب ہیں میں کب سے انتظار کر رہا ہوں آپ نے ہی تو کہا تھا کہ سر دھو دو مگر ایک شرط ہونے میں کتنا ٹائم لگتا ہے تم نے تو لگتا ہے سارے ہی کپڑے دھو دیئے آپ نے لیکن آواز تو نہیں دیا مجھے کیسے دیتا وقاص نے ہنس کر کہا ارے بھائی میں تمہاری صبر میں لیٹا تھا

کہ آنکھ لگ گئی اور خواب میں بھی تمہیں میرے پاس ہیں تو تم کو آواز کیسے دیتا ہاں بس اب اتنا بھی نہ بنیےمیں نے کہا اب نہیں رہا بیگم صاحبہ خدا کی قسم سچ کہہ رہا ہوں ذرا آنکھ لگ گئی تھی خواب میں دیکھ رہا تھا کہ تم میرے پاس ہو پر آنکھ کیسے کھل گئی تم نے غسل خانے میں پانی سے بھری بالٹی گرائیں شاید اسی سے دل ٹوٹ گئی اچھا اب ذرا سا اور انتظار فرمائیے میں ذرا کپڑے پھیلا دو ورنہ گلے پڑے رہیں گے جائے جناب انہوں نے اس ادا سے کہا اور میں باسکٹ اٹھا کر چھت پر آ گئے کپڑے زیادہ تھے انہیں ڈالنے اور پھیلانے میں ذرا وقت لگا ادھر وقاص صاحب بستر پر لیٹے بے چینی سے میرا انتظار کرتے رہےجب انتظار کی زحمت برداشت نہ ہو سکی تو دبے قدموں سے میرے پیچھے پہنچ کے میں تو بے فکر رسی پر کپڑے ڈالنے میں مصروف تھی مجھے خبر نہ تھی کہ ہمارے گھر کے سامنے والے گھر کی کھڑکی سے کوئی نوجوان مجھے نئی نویلی دلہن سے لطف اندوز ہو رہا ہے میری عادت تھی اپنے آپ میں گم رہنے کی ادھر ادھر کم ہی دیکھی تھی سامنے والے مکان کی جانب میرا دھیان گیا وقاص نے پہلے مجھ سے پھر سامنے کی جانب کھڑے نوجوان کی طرف دیکھا ان کا موڈ ایک دم آف ہوگیا اور نگاہوں سے وہ ان صاحب کو گھورنے لگے جو مجھے بڑے حیات سے دیکھ رہا تھا میرے بال کھلے ہوئے تھے اور ٹھنڈی ہوا کے جھونکوں سے ادھر ادھر جھوم رہے تھے میں نے دوپٹہ لیا ہوا تھا ہاتھوں میں کانچ کی چوڑیاں 66 برس رہی تھی مجھ کو اوقات کی آمد کا احساس ہو گیا ان کو ستانے کے لیے میں نے ان کی طرف توجہ نہ دی آئی میرا منہ دیکھتے رہ گئے میری اس مصنوعی بے نیازی سے ان کا پارہ اور بڑھ گیا ان کا خون کھول اٹھا بڑی مشکل سے غصے کو ضبط کرکے بولے یہ کیا ہو رہا ہے

ادھر دیدار کے مزے لوٹتے جا رہے ہیں سامنے والے نوجوان نے وقاص کا چہرہ دیکھا تو فورا کھڑکی بند کر دیںجب نوجوان کو کھڑکی بند کرتے دیکھا تو نہ کردہ جرم نے مجھے چھوڑ بنا دیا بس اتنی سی بات تھی جسے میرا سکون لوٹا اور وقاص کے ذہن میں شک کی چنگاری بھرتی یہ سب کچھ اتنا کہ وہ لوگ اس نے پوچھا تو میں نے بھی وضاحت نہ کیا انہوں نے کھڑکی کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا یہ سب کیا تھا سر اور میں سر جھکا کر شرمندہ ہوں گی جیسے سچ مچ کوئی معاملہ ایسا تھا کہ میں ہی کو بار تھی پھر ہم دونوں خاموشی سے نیچے آگئے کافی دیر تک اس نے مجھ سے بات نہ کی جیسے خود کو اندر سے سنبھال رہے ہو وہ بڑی پوری طرح بکھر گئے تھے ایک گھنٹے کی اس طویل اداسی میں میرا دم گھٹنے لگا جب وہ کبھی بھی ایک منٹ سے زیادہ موشن نہیں رہتے تھے بالآخر مجھے ہی کوئی بات کرنا پڑی کیا بات ہے کیوں بیٹھے ہواس سوال پر جیسے وہ پھٹ پڑے بہانہ ڈھونڈ رہے تھے کہ غصہ نکالنے لگے تو غسل خانے میں کپڑے دھو رہی تھی نہ تم اتنی دیر سے کہاں تھی چھت پر کیا سلسلہ چل رہا تھا ان کے منہ سے ایسی باتیں سن کر میں حیران رہ گئی آپ نے دیکھا نہیں میں کتنے کپڑے دھو رہی تھی چھت پر ان کو ڈالنے گئی تھی اور کہاں گئی تھی دیر تک تم کپڑے ڈال رہی تھی مجھے بیوقوف مت بناؤ مجھ کو مجھ سے ایسی توقع نہ تھی ایسا لگا جیسے انہوں نے میرے چہرے پر طمانچے مار دیا ہو تب بھی احساس سے پھوٹ کر رونے لگیاس کے بعد ان کے دماغ میں تعلیم سے جلنے لگے اور دفتر بھی جاتے تو تمام وقت بےچین رہتی اس کیفیت میں کے کہیں ان کی غیر موجودگی میں اس نوجوان سے سلسلہ قائم تو نہیں کر رہی ان کی بیوی چھت پر تو نہیں چلی جاتی اور نہ جانے میری غیر موجودگی میں کیا گل کھلا رہی ہوں گے یہ ساری ان کی ذہن کی سوچ تھی انکے عجیب و غریب رویوں نے میری ذہنی حالت بھی عجیب کر ڈالی تھی وہ اب اچانک بے وقت گھر آنے لگے وہ دفتر جاتے مگر طبیعت کا بہانہ بنا کر اچانک کسی بھی وقت گھر آ جاتے ان کی بے وقوف آمد پر میں حیران رہ جاتی ہے بلکہ ہمیشہ ان کو گھر میں موجود ہیں لیکن وہ ڈھکے چھپے لفظوں سے حادثات کا اظہار کیا کہہ گئی تھی آج تو بڑے اچھے کپڑے پہنے ہیں بڑی بنی سوری ہو کیا کہیں جانے کا ارادہ تھا

میں جواب دیتی وقاص میں کہاں جاؤں گی کہا جا سکتی میں آپ کے بغیر کہیں بھی نہیں گئی تھی رفتہ رفتہ میں جان گئی کے وقاص کی دنیا تباہ ہورہی ہے ان کی حالت خود انہی سوچوں میں غیر کردی ہے وہ اپنی منفی سوچوں کو خود پر سوار کر رہے ہیں وہ اب جیتے تھے نہ مرتے تھے ابھی حالت اتنی خراب نہ ہوئی تھی کہ سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ سامنے والے تمام گھرانے اپنے آبائی علاقے لیکن وہ نوجوان جس کو کھڑکی پر کھڑا دیکھا تھا وہ نہیں گیا تھا کیونکہ اس کے امتحانات ہونے والے تھے وہ تعلیم کی خاطر رک گیا گھر میں اکیلا رہتا تھا جب اس بات کا وقاص کو علم ہوا تو وہ حیران رہ گئے انگاروں پر لوٹنے لگے ان کا بس نہ چلتا تھا کہ کیسے اپنے رویوں کو گولی سے اڑا دے یا پھر اس کے مکان کو اس ہستی سے مٹا دیں اس نوجوان کا نام ارشد تھا یہ مجھے بعد میں پتہ چلا اس کا نام بھی خود مجھ کو وقاص نہیں بتایا تھا ارشد کے ابا کا یہ ذاتی مکان تھا وہ برسوں سے یہاں رہ رہے تھےان کو اس محلے سے نکالا نہیں جا سکتا تھا وقاص نہیں اس کی کوئی حرکت یہ بات بھی ایسی نہ دیکھی تھی اس پر کسی قسم کا الزام لگایا جا سکتا یا اس کو تنقید کا نشانہ بنایا جا سکتا وقاص نے حلالہ کے چھپ کر جاسوسی کرنے کی کوشش کی لیکن یہ بھی نہ ہو سکا کہ کبھی وہ مجھے دروازے پر بہتر جانتے ہوئے دیکھتے یا کسی کی طرف مسکراتے میری گردن دبوچ لی تو ایسا کچھ تھا ہی نہیں مجھ کو پہلے ان پر غصہ آتا تھا پھر ہم آنے لگا کیونکہ میں پاک دامن اور اچھے اخلاق کی مالک تھی لیکن وقت خود کو نہ کردہ گناہ کی سزا دے رہے تھے اس سے ان کی حالت غیر ہوگئی تھی

ان کی سوچوں پر دکھ ہوتا تھا مگر میں ان کو شک و شبے کی اس آگ میں جل سکے دیکھ کر میں بہت زیادہ دکھی ہو جاتی تھی میں ان کو اس آگ سے نہیں بچا سکتی تھی اپنی اس ذہنی اذیت ناک کیفیت کے ہاتھوں وہ جیتے جی موت کا مزہ چکھ رہے تھے مجھ میں ہمت نہیں ٹھیک ہوں کہ آپ شک کی ذہنی کیفیت میں مبتلا ہوگئے ہیں خدارا خود کو موت سے بچنے اور پاگل ہونے سے بچائیں کسی ماہر دماغ امراض کے پاس جا کر اپنا علاج کروائیں اگر ایسا کہتی تو یقینا مجھ پر بڑی بڑی طرح پیش آتے ایک بار انہوں نے اپنے دوست کے اصرار پر اسے اپنے دل کا حال بتا دیا یہ دو سال کا رشتہ دار تھا اور میرا کزن جنید تھا جو ان کے ساتھ کی دفتر میں کام کرتا تھا جب وقاص بار بار غیر حاضر ہونے لگے تو جنید نے اپنی دوستی کی قسم دے کر کہا مجھے اپنی پریشانی سے آگاہ کروں میں دیکھ رہا ہوں کہ تم روز پریشان رہتے ہو سکتا ہے میں تمہاری پریشانی کو دور کر سکوںوقاص کو بھی شدید کسی غم گسار کی تلاش تھی انہوں نے اس سے کہا میں تم پر بھروسہ کر رہا ہوں کسی سے میری بات کہہ کر میرا بھروسہ مت توڑنا اور نہ ہی مجھے مایوس کرنا پھر اسے بتایا کہ یار کچھ دنوں سے میری عجیب کیفیت ہو گئی ہے جب دفتر میں ہوتا ہوں ایسے برے خیال آنے لگتے ہیں مثلا میری بیوی کے ہمسایہ نوجوان سے تعلق ہوگئے ہیں اس سے میری غیر موجودگی میں اسے گھر بلایا ہوگا اور اب وہ اس کے ساتھ پیار بھری باتیں کر رہی ہوگی جب ایسا خیال آتا ہے تو میں دفتر سے گھر بھاگتا ہوں یقین ہوتا ہے کہ آج تو اسے رنگے ہاتھوں پکڑ لوں گا اور دونوں کو قتل کر دوں گا بے شک پھانسی پر ہی چلے جاؤ مگر یہ روز روز کی اذیتوں ختم ہو جائے گی ایسا مگر نہیں ہوتا بیوی گھر میں موجود ہوتی ہے وہ ہشاش بشاش ھوتی ھے اور خوشدلی سے پیش آتی ہے حال پوچھتی ہے وہاں کسی کی موجودگی کے آثار تک نہیں ملتے اس میں تنگ آگیا ہوںاس کیفیت سے بتاؤ میں کیا کروں مگر ان برے خیالات نے میرا پیچھا نہ چھوڑا تو یقینا میں خودکشی کر لوں گا جنید نے کافی سمجھایا کہ نفسیات کا طالب علم رہا تھا

اس نے کہا کہ یہ ایک ذہنی عارضہ ہے تو ان باتوں سے جلد نکلو اگر نہیں نکل سکتے تو بہتر ہے میرے ساتھ چلو کسی ماہر نفسیات سے مشورہ کر لیتے ہیں یہی تمہارے حق میں بہتر ہے اس سے پہلے کے حالات مزید خراب ہو وقاص نے جنید کو بھی برا بھلا کہہ دیا کہ وہ انہیں پاگل سمجھ رہا ہے حالانکہ پاگل نہیں تھی بے شک ذہن میں آنے کی کوئی نہ کوئی وجہ ہوتی ہے وجہ ہیں تو معلوم کرنی ہے اور بعض اوقات ہم خود ہی اپنا مسئلہ نہیں سمجھ سکتے تو کسی اور کی مدد لینی پڑتی ہے ہاتھوں پہ کسی دانش اور انسان کی اس وقت تو وہ خاموش ہو گئے ظاہر کرنے لگے کہ وہ خود کو سمجھا بچا لے گا لیکن ایسا نہ ہوسکا کیونکہ یہ ایک سنگین بیماری تھی جس میں وہ مبتلا تھے اور جس کا اعتراف دوسرے تو کر سکتے تھے مگر وہ خود نہیں کر پا رہے تھے جب ان ساری روداد مجھ کو بتائیں میں نے کہا جنید وقاص تم کو اپنامیں خود ان کی پلیٹ میں سالن وغیرہ ڈال دیتی ہے اور اصرار کرتی کی کھائیں اور بتائیں کیسے بنایا میری اتنی سی توجہ ایک روز میرے شوہر نے نوٹس لے لیا پھر کیا ہوا وقت ان کاش کی ذہنیت کی طرف ہو گیا وہ کھڑکی والے نوجوان کو بھول گئے اور اب ان کے نشانے پر جنید آگیا جنید کو شروع میں پتہ چلا مجھے بھی احساس نہ ہوا ہے میں اسے تو جو دے رہی تھی اور مہمان نوازی کے تقاضے نبھا رہی تھی اس حقیقت سے بے خبر تھی کہ میری اس مہمان نوازی پر میرے خاوند کے کلیجے پر سانپ لوٹ رہے ہیں جب احساس ہوا تو پانی سر سے گزر چکا تھا وقاص نے کھلے الفاظ میں مجھ پر الزام لگا دیا کہ تمہاری منی سے تعلقات شادی سے پہلے ہو گئے تھے بلکہ وہ تمہارا کزن ہے پہلے وہ میرے قریب آیا اور ہمارے گھر گھس آیا وہ مجھے کما دینے کی

سوچ رہا ہے تم بھی ڈرامے میں اپنا کردار پوری طرح ادا کر رہی ہو ہے بھائی شاباشان کی اس نئی الزام تراشی سے میں حیران ہو گیی اے میرے خدا پہلے اس نوجوان سے ملنا ناجائز رشتہ جوڑنے پر چلے تھے جنید میرا کزن تھا گھر میں آنے جانے لگا تھا تو اب شک یقین کا روپ دھارنے میں ایک منٹ بھی نہ لگا میں رونے لگی مجھ سے معافی مانگی مجھ سے پہلے جیسا ہونے کا وعدہ کیا مگر چند دن تنہائی میں رہنے کے عجیب عجیب سوال کرتے اچانک ادھر کچھ ڈوبنے لگتا ہے پھر پوچھتے ہیں تو نہیں آیا تھا آج دفتر سے غیرحاضر تھا خدا کا واسطہ میں کہتی آپ کو کیا ہو گیا ہے جنہیں بھلا کیوں آنے لگا آپ کی غیر موجودگی میں وہ کیوں آئے گا ہمارے گھر جب کہ وہ میرے لئے نہیں آپ کے لئے آتا ہے میری بات کا نہیں کسی طور پر یقین نہیں آتا اور جن مشکوک انداز سے میری طرف دیکھتے کچھ اس طرح کے مجھے خوف سے پسینہ آ جاتا میں چلا کر کہتی خدا کا خوف کرو وقاص جنید کوئی مکھی مچھر تو نہیں جو کونوں میں چھپ کر بیٹھ جائے گا نوبت یہاں تک پہنچی کہ ہمارے آرام دو دن ہوا میں دلیل ہو گئےہم ایک دوسرے پر چیختے چلانے لگے جب کسی کا نہ کسی پر عیاں ہو جائے تو وہ لباس ہونے والے کی شرم و حیا ختم ہو جاتا ہے جب کہ میں بالکل بے قصور تھی اب دیدہ دلیری سے کام کرنے لگیں ان کو شکیل انسان ذہنی مریض تک کہہ دیا مگر وہ جو کہ تو نہ وہ واقعی ناقابل اصلاح ہو گئے تھے مایوس ہو کر میں نے جینی سے کہا تم کسی اور شہر چلے جائیں اور نوکلی دیکھ لوں تاکہ میرے دکھوں کا بوجھ میں دب جائے اس سے کہا بی بی عائشہ شہر یا ملک سے بھی نکل جائے تب بھی تم کو اذیت سے نجات نہیں مل سکتی کیونکہ جو بیماری تمہارے شوہر کے اندر موجود ہے وہ موجود ہی رہے گی میرے چلے جانے سے تمہارا دل دار صاحب ٹھیک نہیں ہو سکتامیں گیا تو کوئی دوسرا میری جگہ لے لے گا یہ سیٹ خالی نہیں رہے گی جنید نے سچ کہا تھا میں سمجھتی تھی مقاصد اپنا علاج کروانے کو تیار نہ تھے

وہ ہمیں نگار کی سیٹ میں سجائے رکھنا چاہتے تھے جانے کیوں ایسا تھا لیکن ہر اذیت کا پتھر ہوتا ہے سو ایک دن انہوں نے بات کو پکڑ لیا کہ میرے منہ سے ان کو پکارتے ہوئے وقاص کی وجہ نیت کا نام ادا ہوگی ایسی غلطی سے ہوا تھا مگر وقاص نیٹ لگا دی تھی کہ تمہارے دل میں جنید بسا ہوا ہے تبھی میرے نام کے بجائے لبوں سے اس کا نام لکھ نکلا ہے میں نے لاکھ بار یہ چیز بتائیں کہ غلطی سے آپ کے نام کی بجائے اس کا نام پکارا گیا ہے مگر وہ نہیں مانے انہوں نے مجھے طلاق دے دی اور طلاق دے کر ہی انہوں نے سکون کا سانس لیا مجھے بہت صدمہ ہوا مگر میں نے خود کو سنبھال لیا کہ یہ اچھا ہی ہوا میں ایک شکیل انسان کے ساتھ زیادہ دیر تک نہیں رہ سکتی تھی زندگی نہیں گزار سکتی تھی ایسی اذیت بھری زندگی گزار کے میں مرجاتی سوچ لوں وقاص کو بھی سکون مل گیانہیں خبر کے وقاص کس حال میں ہے اس کو سکون آیا پچھتاوا ہوا اب مجھے معلوم کرنے کی ضرورت بھی نہ تھی جیسا اس نے کیا ویسا پایا میری جنید کی شادی کو چھ ماہ بعد ایک روز قیامت ٹوٹ پڑی جس کا کسی نے تصور بھی نہیں کیا تھا

وقاص نے جنید پر بیچ بازار گولیاں برسا دیں اور خود کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے چلا گیا ہماری شادی سے اس کا شک یقین میں بدل گیا کہ ضرور میرا جنید کا کچھ غلط معاملات ابھی طلاق کے بعد شادی کر لی حالانکہ خدا گواہ ہے کہ ایسا کچھ بھی نہیں تھا ہم ایک دوسرے کو نکاح کے قابل بہن بھائی کی نظر سے دیکھتے تھے نکاح سے پہلے جنید کی بعد میری دنیا اجڑ گئی خدا جانے وقاص کو کیا ملا اچھی والی زندگی شک کا زہر گھول کر تباہ کر دیں مجھ کو در بدر کر دیا جنید کی جان لے لیں اور خود جیل چلا گیا خدا جانے وہ اب بھی چین سے ہے یہ عشق کا عین بنا ہوا ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *