آج میری شادی تھی اور میں دلہن بنی بیٹھی تھی کہ اچانک شور اٹھا برات آگئی برات آ گئی , ساتھ ہی پٹاخوں اور ہوائی فائرنگ کی آوازیں آنے لگیں , میرا دل تو زور زور سے دھڑ کنے لگا کیونکہ اب میں اپنے ماں باپ کے گھر میں صرف چند گھڑیوں کی مہمان تھی اس کے بعد مجھے باقی کی ساری زندگی ایک انجان مخص کے ساتھ گزارنے تھی , جس سے آج میری شادی تھی ۔ یہ سوچ کر ہی میری آنکھوں میں آنسو آ گئے ۔
میرادل سوکھے پتے کی مانند لرزنے لگا تھا ۔ تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ باہر سے غیر معمولی قسم کا شور آنے لگا جس میں مردوں کے تیز بولنے کی آواز میں اور کچھ عورتوں کے رونے کی آواز میں بھی شامل تھی , ساتھ ساتھ ایسی آواز میں بھی آرہی تھیں جیسے کوئی کہہ رہا ہو کہ اس کو ہسپتال لے جاؤ ۔ پھر اچانک سے آواز آئی کہ پولیس کو کال کرو میرا دل ڈر کے رہ گیا تھا کہ پتا نہیں اچانک ایسا کیا ہو گیا تھا جو ایسی آواز میں آنے
گی تھیں ۔ میں اکیلی کمرے میں بیٹھی بے چین ہو رہی تھی کہ آخر مجھے بھی تو پتہ چلے کہ کیا ہوا ہے ۔ اس دوران میری مچوٹی بہن شمینہ بھاگتی ہوئی میرے پاس آئی اور کہنے لگی کہ آپی باہر بہت بڑا مسئلہ بن گیا ہے ۔ میں نے لرزتی ہوئی آواز میں پوچھا کہ کیا ہوا ۔ تو اس نے بتایا کہ دلہے کے بھائی نے ہوائی فائر چلایا جو کہ ایک محلے کے لڑکے کو لگ گیا ہے اس کی حالت بڑی خراب ہو گئی ہے اور اس کو ہسپتال لے
کئے ہیں ۔ یہ سنتے ہی میرے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہونے لگے اور پریشانی سے میری آنکھوں سے آنسو نکل پڑے یہ اچانک کیا ہو گیا تھا ۔ ہماری خوشیوں کو کس کی نظر لگ گئی تھی ۔ تھوڑی ہی دیر کے بعد پولیس آ گئی اور میرے ہونے والے شوہر اس کے ن بھائی کو گرفتار کر کے تھانے میں لے گئی ۔ جس گھر میں ابھی خوشیاں تھی اور شہنائی بیج رہی تھی وہاں ایک دم سوگ کا ساں بن گیا ۔ کافی وقت گزرنے کے بعد میرے ابو اور
میرے تایا ابو کمرے میں داخل ہوۓ اور مجھے کہنے لگے کہ بیٹی آج اگر تمہاری رخصتی نہ ہوئی تو ہماری عزت خاک میں مل جاۓ گی اور وہ کسی صورت بھی دلہے کو رہا کرنے پر راضی نہیں ہیں ۔ بس اب ہمارے پاس ایک ہی حل ہے کہ تم خود ہمارے ساتھ تھانے جاؤ اور اپنے دولہے کی ضمانت کے لیے تھانے دار سے بات کرو ہو سکتا ہے وہ تمہارا سرخ جوڑا د یکھ کر رحم کھا لے اور ان کو رہا کر دے ۔ میں اس وقت عروی جوڑے
میں ہی اپنے ابو کے ساتھ تھانے روانہ ہو گئی میرے ابو باہر رک گئے اور میں اکیلی اندر چلی گئی ۔ کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد مجھے تھانے دار کے کمرے میں بھیج دیا گیا ۔ وہ ایک ہیت ناک شکل والا انسان تھا ۔ وہ میز پر ٹائلیں رکھے سگریٹ پی رہا تھا اور اس کی بڑی بڑی مونچھوں نے اس کے چہرے کو مزید ا خوفناک بنا رکھا تھا ۔ میری بات سن کر وہ کافی دیر مجھے گھورتا رہا اور پھر کہنے لگا اچھا تو سہاگ رات منانے کی
بہت جلدی ہے تم کو ۔ اس کی بات سن کر میں شرم سے پانی پانی ہو گئی لیکن خاموش رہی وہ چلاک انسان ہماری مجبوری سمجھ چکا تھا اور اس سے فائدہ اٹھانا چاہتا تھا ۔ مجھے کہنے لگا کہ لڑ کی ضمانت تو بہت مشکل ہے کیونکہ جس کو گولی گی ہے اس کی حالت خطرے میں ہے ۔ میں نے ایک لمبا سانس لیا اور پریشانی سے انگلیاں چٹخانے گی وہ کرسی سے اٹھ کر سگریٹ کا دھواں اڑاتا ہوا میرے پاس آ کھڑا ہوا اور
میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہنے لگا ! کہ ایک شرط پر تمہارے دلہے کو مچوڑ دونگا اگر تمہیں آج ہی اپنا دلہا چاہیے تو اس سے پہلے تمہیں میری دلہن بننا پڑے گا ۔ میں اس کی بات سمجھ گئی اور مزید پریشان ہو گئی ۔ مجھے کسی صورت بھی اس کی آفر قبول نہیں تھی ۔ میں چپ چاپ تھانے سے باہر نکل آئی , سامنے دیکھا تو میرا باپ گھٹنوں میں منہ چھپا کر رو رہا تھا ۔ مجھ سے اس کی بے بسی دیکھی نہ گئی کہ آج وہ
میری وجہ سے کتنا مجبور تھا ۔ میں الٹے قدموں تھانے دار کے پاس واپس آ گئی اور اس سے کہنے لگی کہ پہلے مجھے اپنے ہونے والے شوہر سے ملنے دو اس کے بعد کوئی فیصلہ کروں گی ۔ اس نے اپنے ایک سپاہی کو آواز دی اور اس کے ساتھ مجھے بھیج دیا جہاں میرا ہونے والا شوہر موجود تھا ۔ وہ شیروانی پہنے گلے میں مالا ڈالے پریشان سا بہت پیارا لگ رہا تھا ۔ مجھے دیکھتے ہی وہ میری طرف لپکا اور میرے کچھ کہنے سے
پہلے ہی بول اٹھا کہ مجھے معلوم تھا کہ میری ہونے والی دلہن ضرور مجھے بچانے آۓ گی ۔ میں خاموشی سے اس کی طرف دیکھتی رہی اور سوچتی رہی کہ قدرت نے ہماری پہلی ملاقات کا انتظام کہاں کر رکھا تھا ۔ ایسا تو میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا ۔ میں نے اس کو صاف صاف بتا دیا کہ تھانے دار آپ کی رہائی کے لئے میرے ساتھ بد کاری کرنا چاہتا ہے ۔ وہ چاہتا ہے کہ میں آپ سے پہلے کچھ دیر کے لئے
اس کی بیوی بنو , ورنہ اگر وہ لڑ کا مر گیا تو تم دونوں بھائی ہمیشہ کے لیے جیل میں رہو گے ۔ میری بات سن کر میرا ہونے والا شوہر سوچ میں پڑ گیا ۔ میں سوچ رہی تھی کہ وہ میری بات سن کر بھڑک اٹھے گاو تھانے دار کو گالیاں دے گا , اسے برا بھلا کہے گا کہ اس کی جرات بھی کیسے ہوئی ایسی بات کہنے کی ۔ لیکن مجھے اپنے کانوں پر یقین ہی نہ آیا ، جب اس نے التجابی انداز میں مجھ سے کہا کہ میری خاطر اس کی بات
مان لو ایک بار اس کی خواہش پوری کر دو , ہم ساری عمر جیل میں سڑنا نہیں چاہتے تم میری ہونے والی بیوی ہو میری خاطر قربانی دے دو نا آخر کو آگے چل کر بھی ہمیں ایک دوسرے کا سہارا بننا ہے ۔ میں نے اسی لمحے اپنے بارے میں فیصلہ کر لیا تھا ۔ میں سست قدموں سے چلتی ہوئی تھانے سے باہر نکل آئی ۔ مجھے دیکھ کر میرا باپ تیزی سے میری طرف آیا اور میرا ہاتھ پکڑ کر پوچھنے لگا کہ بتاؤ بیٹی کیا ہوا ۔ ان
کی ضمانت مل جاۓ گی نا ۔ پھر میں نے کہا ابو آپ نے مجھے آج ہی دلہن بنانا ہے نا ۔ وہ سر ہلا کر کہنے لگے ہاں ہاں کیوں نہیں بیٹی میں نے اپنے ابو کا ہاتھ تھام لیا اور کہنے لگی کہ ٹھیک ہے پھر گھر چلیں , میرے ابو نے حیران ہو کر میری طرف دیکھا اور فکر مندی سے کہنے لگے دلہا تو ابھی تھانے میں ہے بیٹی کہنے گی نہیں ابو دلہا تو گھر ہے ابو نے پھر حیران ہو کر پوچھا کہ بیٹی وہ کون ہے ۔ میں نے مسکرا کر کہا کہ آپ کا بھتیجا
ہے نا , تایا ابو کا بیٹا علی , یہ سن کر حیرت اور خوشی سے میرے باپ کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا اور ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے پھر انہوں نے پیار سے مجھے گلے سے لگا لیا ۔ کچھ عرصہ پہلے میرے تایا ابو اپنے بڑے بیٹے علی کا رشتہ میرے لیے مانگتے تھے اور میرے ابو کی بھی یہی مرضی تھی , وہ اس رشتے سے خوش تھے کہ چلو بیٹی بھائی کے گھر چلی جاۓ گی ۔ علی خود بھی مجھے بہت پسند کرتا تھا ۔ لیکن میں نے
صرف اس وجہ سے اس رشتے سے صاف انکار کر دیا تھا کیونکہ علی زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا ۔ اور اپنے باپ کا خاندانی کاروبار سنجالتا تھا ۔ چونکہ میں خود زیادہ پڑھی لکھی تھی اس لیے مجھے شوہر بھی زیادہ پڑھا لکھا چاہیے تھا ۔ لیکن آج عین وقت پر قدرت نے مجھے غلط ہاتھوں میں جانے سے بچا لیا تھا ۔ ایک ایسا انسان جو اپنی اور اپنے بھائی کی جان چھڑانے کے لئے اپنی دلہن کی عزت قربان کرنے پر تیار ہو گیا تھا ۔ پتا
نہیں وہ کل کو میرے ساتھ کیا سلوک کرتا ۔ میں تو یہ سوچ کر ہی ڈر گئی تھی ۔ پھر اسی دن میں اپنے کزن علی کی دلہن بن کر ان کے گھر چلی گئی جو کہ ہمارے گھر سے فقط ایک دیوار کے فاصلے پر تھا ۔