کسی جگہ پر ایک جنگل کے ساتھ ایک گاؤں آباد تھا ۔ وہ گاؤں ہرا بھرا اور زرخیز زمینوں پر مشتمل تھا ۔ ایک دفعہ اس گاؤں میں ایک عجیب و غریب مسئلہ پیدا ہو گیا تھا کہ جب اس گاؤں میں جس بھی دلہے دلہن کی شادی ہوتی اور سہاگ رات کے بعد جب اس دلہے کے کمرے میں اس کے گھر والے جاتے توارج کے بستر پر جسمکاٹے ہوۓ اعضاء کے ٹکڑے ملتے اور اس کے گھر والے سر پیٹتے رہ جاتے لیکن ان کی لاشوں کا کہیں بھی پتہ نہ چتا۔ایسادو تین مرتبہ ہواتو گاؤں والوں نے شادی کرنا چھوڑ دیں۔اب نوجوارج اور حسین و جمیل لڑکیاں اپنے ماں باپ کے گھروں میں بیٹھ گئی اور اس ڈر کی وجہ سے اس گاؤں میں لوگ شادی نہیں کرتے تھے۔
اسگاؤں کے عقلمند اور نوجوارب لوگوں نے بہت کھوج لگائیں لیکن کوئی بھی بات سامنے نہ آئی۔اس گاؤں کے کسان کا بیٹاں شہر میں پڑھنے گیا ہوا تھا تھا چند سال بعد جب وہ نوجواج واپس لوٹا تو اس کے باپ نے اس کو ساری صور تحال سے آگاہ کیا ۔ میہ سے کر وہ نوجوان لڑکابڑا حیراج و پریشان ہوا آخر ایسی کیا وجہہے کہ ہمارے گاؤں میں ایامسئلہ پیش آگیا ہے اور اس کا بھی پتہ نہیں چلتا ۔ ہ سوچ میں پڑ گیا کہ اس مسئلہ کا کوئی نہ کوئیے حل تو ضرور نکالناپڑے گا کیوں کہ شادی کوروک دیتا یہ کسی مسئلہ کا حل نہیں ہے ۔ اس کے بعد اس نے باپ کو کہا کہ وہ گاؤں کے تمام بزرگوں کو ایک جگہ اکٹھا کر و ۔ ہم تمام مل بیٹھ کر اسمسئلے کا حل نکالتے ہیں۔اس کے باپ نے تمام بزرگوں کو اکٹھاکیا اور اس نوجوان نے کہا کہ بزرگوں ہر مسئلے کا کوئی نہ کوئیے حل ہو تا ہے اور اس مسئلے کا بھی کوئی نہ کوئی حل ضرور ہو گا ۔ گاؤں والوں نے سوچناشر وع کیال کرج کسی کو اس کا حل نظر نہ آیا کیونکہ ماں باپ سے رسک نہیں لینا چاہتے تھے اور کسیبھی بیٹی یا بیٹے کے والدین پنی اولاد کار شتہ نہیں کر نا چاہتے تھے کیونکہ وہ کہتے تھے ۔ کہ ان کی شادیوں سے زیادہ ان کی جان قیمتی ہے ۔ پھر وہ کھڑا ہوا اور کہا اگر تم گاؤں والے مجھ پر اعتبار کرتے ہو تو تم تم میں ایک ترکیب بتاتا ہوں تو گاؤں والوں نے کہا کہ تم ہمارے گاؤں کے واحد پڑھے لکھے نوجواج ہو تمھارےعلاوہ اس گاؤں میں کوئی پڑھا لکھا نہیں اس لیے تم پر ہمارا اعتبار کر نا تو بنتا ہے ۔ اس نوجوان نے کہا کہ میری ایک بات مانو اور کسی دلہے دلہن کے شادی کر و اور سہاگ رات کے رات میں دینے کیے جگہ کمرے میں گزاروں گا اور میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں اس لڑکی کو چویں تک نہیں لیکن میں اس بات کا ضرور پتہلگالوں گا کہ اس کے پیچھے کیا وجہ ہے پہلے تو گاؤں والے سوچنے لگ کئے انہوں نے اس پر اعتبار کر لیا اور دلہے ولہن کی شادی کیے گئی اور دلہن کو اس کمرے میں بٹھایا گیا
اور اس دلہے کیے جگہ اس پڑھے لکھے نوجوان کو کمرے میں بھیجا گیا ۔ جب آدھی رات کا وقت ہوا تو اس نوجوان نے بستر کی شکل اس طرح بنادیں کہایسے لگتا تھا کہ اس میں دلہا اور دلہن رہے ہیں لیکن خودایک کونے میں مچپ کر بیٹھ گیا اور دلہن کو بستر میں سلادیا ۔ وہ اس بات کی انتظار میں تھائی آخر ہر سوہاگ رات کی رات کمرے میں کیا ہو تا ہے ۔ آدھی رات کا وقت ہوا ہوا تو ایک ڈراؤنی شکل کا آدی اپنے ہاتھوں میں تلوار لئے اس کمرے میں داخل ہوا اور کہا جوچیز میرے نصیب میں نہیں ہے کسی کے نصیب میں نہیں ہونے دوں گا اور اپنی نیام سے تلوار نکال کر دلہن پر حملہ کرنے لگا تو اس نوجوان نے اس کو پکڑ لیا اور اس کیے تلوار سے ہی اس کی گردن پر رکھ دی اور ادھر سے گاؤں والوں کو آواز لگائے تو تمام گاؤں والے کمرے میں آگئے تو اس کی شکل کےآدمی کو دیکھ کر پہلے تو وہ ڈرکے لیکن پھر انہوں نے اس کورسیوں میں جکڑ لیا اس نوجوان نے اس سے پوچھا کہ بتاؤ کہ تم نوجوارج دولہے اور دلہن کو کیوں قتل کرتے تھے اور اس کے جسم کے اعضا کاٹ کر بستر پر کیوں پھینک دیتے تھے اور ان کی لاشوں کو کہا پھینکتے تھے تو اس نےکہا کہ میں نے بڑے ارمانوں سے اپنی شادی کی تھی لیکرج شادی کی رات کو ڈاکو نے میری بیوی کو اٹھا کر لے گئے میں نے اس دن سے ٹھان لیا اور اس دن کے بعد میں نے ٹھان لیا تھا کہ میں بھی کسی کو شادی نہیں ے کرنے دوں گا اور جو ایسی غلطی کرے گا اس کو میں انجام تک پہنچادوں گا ۔ تو اس نوجوان نے کہا تمہارے ساتھ ناانصافی ہوئی تھی تو تم گاؤں کے سر پنج کے پاس آتے یا تانی کی عدالت میں جاتے تمہیں ضر در انصاف مل جاتا
لیکن ان معصوم اور بے گناہ لو گوں کو قتل کرنے کا کیا فائدہ اس کے بعد اس نوجوان نے اس کو پانی کی عدالت میں پیش کر دیا اور تانی نے اس کو سنگسارکرنے کا حکم دے دیا اور اس طرح اس نوجوان کے عقل مندی اور بہادری سے گاؤں والے اتنی بڑی مصیبت سے نکل گئے