قاہرہ (مانیٹرنگ ڈیسک)تاریخ کی مشہور ترین شخصیات میں سے ایک قدیم مصر کے فرعون طوطن خامن کو عام طور پر ایک طلسماتی بادشاہ کے روپ میں پیش کیا جاتا ہے اور مصری دیو مالاﺅں اور تاریخی تذکرو ں مٰن بھی اسے بہت ہی ہیبت اور جلال والا فرعون ظاہر کیا جاتا ہے لیکن ایک طویل سائنسی تحقیق کے بعد اب اس کی اصلیت دنیا کے سامنے آ گئی ہے۔
ماہرین آثار قدیمہ ، تاریخ دانوں ، سائنسدانوں اور علم بشر ہات ماہرین نے ملکر ایک طویل تحقیق کی ۔ انہوں نے مصری شہر گیزا میں فرعون کے مقبروں کے شہر میں موجود طوطن خامن کے ڈھانچے اور باقیات پر جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے تحقیق کی اور طاقتور کمپیوٹروں سے بنائے گئے 2000جسمانی نقوش کی مدد سے اس کے جسم اور خدوخال کی تصویر تیار کر لی ۔حقائق سے پردہ اٹھا تو معلوم ہو ا کہ یہ فرعون قدرے زنانہ جسم کا مالک تھا ،اس کا بایاں پاﺅں ٹیڑھا تھا اور بیماری اور کمزوری کی وجہ سے وہ چھڑی کے سہارے چلتاتھا۔طوطن خامن اس کے والد اخناطون او ر والدہ کے ڈی این اے نمونوں کے تجزئیے سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس کے والدین آپس میں بھائی بہن تھے اور ان کے شرمناک تعلق سے اس کی پیدائش ہوئی ۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اس فرعون کی جسمانی خامیوں ، کمزوریوں کی وجہ بھی یہی تھی کہ اس کے والدین میں بھائی بہن کا رشتہ تھا۔طوطن خامن فرعون آج سے تقریباً 3500سال قبل مصر کا حکمرا ن تھا ۔انسان کرہ زمین پر قدم رکھتے ہی فطرت کو سمجھنے اوراسکے اسرار و رموز جاننے کی جستجو میں لگ گیا۔ دنیا میں ایک زمانہ ایسا گزرا ہے کہ جب تاریخ عالم میں ’’ معجزات ‘‘ کا بڑا ذکر ہوا۔ یہ معجزات انسانی استدلال اور منطق پر حاوی تھے۔ بے شک معجزے کی تعریف یہ ہے کہ کو ئی ایسی بات یا ایسا وا قعہ جو انسانی زندگی میں ظہور پذیر تو ہوا مگر بنی نوع انسان کے پاس اسکی کو ئی تشریح نہ تھی ۔ عہد قدیم کے معجزات کا آ ج کی جدید سائنسی روشنی میں تجزیہ کرنا نہایت مشکلکام ہے کیونکہ ہم ماضی میں پلٹ کر نہیں جاسکتے تاہم چند معجزات ایسے ہیں جنہیں پر کھا جاسکتا ہے ۔ انہی معجزات میں سے ایک حضرت موسیٰ ؑ کا عصا کو سمندرپر مارنا‘ پانی کا معجزانہ طور پر پھٹ کر ان کو رستہ دینا اور فرعون کو اسکے لشکر سمیت دریائے نیل میں غرق کرنے کا ہے جسے ہم ایک سائنسی تو جہیہ کے ساتھ بیان کر یں گے۔
فرعون مصر کے بادشاہ کا لقب تھا۔ حضرت موسیٰ ؑ جس فرعون کے زمانے میں پیدا ہوئے اس کا نام قا بوس ابن مصعب ابن ریان تھا۔ کردار کے لحاظ سے یہ فرعون بابل کے نمرود کا بھائی تھا‘ دونوں ہی نے خدائی کا دعویٰ کیا تھا۔مورخین کے مطابق جب آ پ کا سن مبارک80 سال کے لگ بھگ ہوا تو اﷲ تعالی نے آ پ ؑ کو منصب رسالت کے لیے منتخب کیا اور خالص تو حید کی تعلیم فرمائی گئی اور فرعون اور اسکی قوم کی ہدایت کے لیے مامور کیا۔آ پ ؑ نے مصر کا رخ کیا اور اپنے بھائی ہارون کو ساتھ لے کر فرعون کے پاس پہنچنے اور اس سے دو مطالبات کئے ۔ پہلا یہ کہ اپنے آپ کو خدا کہلوانا چھوڑ دے اور اس ایک خدا کی بارگاہ میں جھک جاؤ جو تمام جہانوں کا مالک ہے۔ دوسرا‘ بنی اسرائیل پر جو ظلم و ستم روا رکھا ہے اسے چھوڑ دے ۔ قاہرو مطلق انسان فرعون جس کو صرف اپنی حکو مت وبادشاہت ہی کا غر ور نہیں اپنی خدائی اور ربوبیت کا بھی دعویٰ تھا وہ اس ضربِ کلیمی کو برداشت نہ کر سکا
اور حضرت موسیٰ ؑ اور بنی اسرائیل پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے شروع کر دئیے۔حضرت موسیٰ ؑ صبر و استقلال کے ساتھ دینِ حق کی تبلیغ کرتے رہے۔ اسی دوران یہ حکم نازل ہوا کہ بنی اسرائیل مصریوں سے علیحدہ اپنی بستی آ باد کریں اور مصر سے نکل جانے کا حکم ہوا۔ نیز یہ بھی بتا دیا گیا کہ فرعون کی طرف سے تمھارا تعاقب کیا جائے گا لیکن وہ اور اس کا لشکر غرقاب ہو گا۔ وہی ہوا ۔ آ پ ؑ مصر سے معہ اپنے ساتھیوں کے روانہ ہوئے تو پیچھے پیچھے فرعون اپنے لاؤ لشکر سمیت تعاقب کر رہا تھا۔ جب بحر قلزم کے قریب حضرت موسیٰ ؑ پہنچے تو آ پ ؑ نے ( خدا کے حکم کے تحت) اپنے عصاکو پانی پر مارا جس سے سمندر میں ایک خشک گزر گاہ بن گئی اور آ پ معہ ساتھیوں کے گزر گئے۔ادھر جب فرعون تعاقب کرتا ہوا اسی راستہ سے گزرا تو اﷲ نے پانی کے شگاف کو دوبارہ ملا دیا‘ اس طرح فرعون اپنے تمام کروفر کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غرق ہو گیا۔ اﷲ کی اس مدد کا ذکر قرآن میں کچھ یوں ہے: ’’ اور ہم نے موسیٰ ؑ کو حکم دیا سمندر میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ اتر جاؤ ‘
اسے دو حصوں میں پاٹ دیا ‘ہر حصہ جیسے اونچی اور ہم باقیوں کو اس تک لے آ ئے۔ ‘‘ بعض شارحین نے اس کو غالباً فلکیاتی اسباب کی بناء پر ایک مدو جزر کا واقعہ خیال کیا‘بعض نے اس کو کسی دورافتادہ مقام پر ہونے والے آ تش فشانی کے عمل سے متعلق ایک زلزلہ سمجھا لیکن یہ سب کچھ ایک خالص مفرو ضہ ہے ۔ حضرت موسیٰ ؑ اور بنی اسرائیل کا سمندر سے گزرنے کا واقعہ بہت سی تحریروں اور سائنسی مطالعوں کا موضوع رہا ہے۔ جدید سائنسی تحقیق کے مطابق سائنس دان سمندر کی دو پاٹوں میں تقسیم کے متعلق معنی خیز نتائج پر پہنچ چکے ہیں اور یہ نتائج مکمل طور پر قرآن کی مثالوں کے عین مطابق ہیں