یاد رہے ! کہ بچوں کے ساتھ نرمی ، خوش اخلاقی، پیار ومحبت، شفقت اور دوستانہ رویہ اختیار کرتے ہوئے اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کی محبت، اطاعت، فرمانبرداری اور وفاشعاری کے جذبات ابھارنا والدین کی اولین ذمہ داری ہے۔ اور یہی ذمہ داری اساتذہ کی بھی ہے۔ اسلا م زندگی کے ہرشعبے میں رہنما اصول فراہم کرتا ہے۔ جس طرح اولا دکے لیے اسلام نے والدین کی خدمت ، ادب واحترام اور فرمانبرداری کو لازمی قرار دیا۔ اور اسی طرح والدین کے لیے بھی اولا دکی تربیت اور تعلیمات نبوی ﷺ میں وضاحت کے ساتھ موجود ہے۔ ہم آپ کو نہ صرف اولاد کی تربیت کے بارے میں پیارے آقا ﷺ کی تعلیمات بتائیں گے ۔ بلکہ ہم آپ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان بھی بتائیں گے ۔ جس میں آپ رضی اللہ عنہ نے بچوں کو مارنے والوں کے لیے اہم پیغام دیا ہے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کاقول کیا ہے؟ اس بارے میں بتائیں گے۔
آپ کو حضور اقد س ﷺ کی روایات اور تعلیمات بھی بتائیں گے۔ جو کہ بچوں کی تربیت کے حوالے سے ہے۔ لیکن پہلےآپ کو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی وہ روایت بتاتے ہیں۔ جس میں بچوں کو مارنے کاذکر ہے۔ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ اپنے بچوں کو ماررہاتھا۔ آپ نے اس کو منع فرمایا: اور یہ ارشاد فرمایا:کہ بچوں کو مت مارا کرو۔ کیونکہ بچے جب تک نابالغ ہوتے ہیں۔ تو اللہ کی رحمت کے فرشتے ان کےساتھ ہوتے ہیں۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں معصوم ہوتے ہیں۔ اور اگر بچہ بلوغت سے پہلے فوت ہوجائےتو اس سے کوئی مواخذہ نہیں ہوتا۔ وہ سیدھا جنت میں جاتا ہے اس لیے بچے کو مت مارا کریں۔ تواس شخص نے کہا اے امیرالمومنین !میں کیاکروں؟ جب میرا بچہ مجھے زیادہ تنگ کرتا ہے۔ تو میں اس کو مارتا ہوں۔ توآپ نے ارشادفرمایا: جب بھی تمہارا بچہ تمہاری نافرمانی کرے یاپھر تمہیں پریشان کرے ۔ تو اس کے سرپرہاتھ رکھو۔ اور اس کو پیار کرو۔ اور اللہ کے رسول اللہﷺ اور اس کے آل پر درود پڑھ کر اس پر پھونک دو۔ انشاءاللہ! وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے تمہاری اطاعت کرنے لگے گا۔ والدین اور اساتذہ کو چاہیے کہ مار کےبجائے شفقت سے کام لیں۔ یہی اسلامی تعلیمات بھی ہیں۔ اور بقدرے ضرورت مار کی نوبت آئے تو اس میں بھی ہمیں اسلام نے عدل کادرس دیا ہے۔ اس بارے میں کچھ مزید اسلامی تعلیمات سے آگاہ کرتا ہے۔ اسلام اس جانب ہماری بہترین رہنمائی کرتا ہے۔
حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جہاں میری زبان کام کرتی ہے۔ وہاں پر اپنا ڈنڈا استعمال میں نہیں لاتا۔ جوشخص چھوٹے پر ڈنڈا اٹھا لے تو سمجھ جانا چاہیے کہ وہ زبان سے سمجھانے میں ناکام ہوچکاہے۔ امام غزالی ؒ کےمطابق حتیٰ الامکان زبان سے سمجھایا جائے۔ ذہنی نفسیاتی طریقوں سے بچوں کی اصلا ح کرنے کی کوشش کی جائے۔ اگر مار ناگزیر ہوجائے تو ان امور کا خیال رکھا جائے کہ طلبہ کی دو قسمیں ہیں۔ نابالغ اور بالغ۔ پھر نابالغ کی بھی دو قسمیں ہیں سمجھدار اور ناسمجھدار۔ امام احمد ؒ نے ناسمجھ بچوں کومارنےسے قطع طور پر منع فرمایا ہے۔ اور سمجھدار بچوں کے بارے میں امام غزالی ؒ کا مؤقف ہے۔ اولاً ان کے جرم سے چشم پوشی اختیار کی جائے۔ اگر دوبارہ کریں تو انہیں اشارتاً ، بالواسطہ یا بلا واسطہ سمجھایاجائے۔ پھر بھی باز نہ آئے تو ان کی ساتھیوں کے ساتھ تنبہیہکی جائے۔ اور اس کے باوجود بھی اس جرم کے مرتکب ہوں تو تین چھڑیوں کی س زا دی جائے۔