اسلام آباد (نیوز ڈیسک) وزیر اعظم جو کہ سیاست میں آنے سے قبل ایک بڑے کھلاڑی بھی رہ چکے ہیں اور اُن کا شمار لیجنڈز میں ہوتا ہے سیاست میں آکر بھی اُنہوں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے وہ ایک انتھک اور محنتی انسان ہیں اُنہوں نے آض تک کبھی بھی ہمت نہیں ہاری.
اب وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ بہت کچھ بدل چکا ہے پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان اقتدار میں آنے سے قبل محنت اور ملک و قوم کی خدمت کی بات کیا کرتے تھے۔ عام انتخابات 2018ء میں شاندار کامیابی کے بعد جیسے ہی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت اقتدار میں آئی اور عمران خان نے وزارت عظمیٰ کے عہدے کا حلف لیا ، تب سے ہی نئی حکومت کے لیے چیلنجز کا ایک دور شروع ہو گیا۔ وزیراعظم عمران خان نے کئی ایسے فیصلے کیے جن پر ان کو پذیرائی ملی جبکہ کئی ایسے فیصلے بھی کیے جن پر انہیں تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ لیکن عمران خان کے بارے میں ایک بات جو واقعی قابل تعریف ہے وہ یہ کہ عمران خان نے وزیراعظم بننے کے بعد ایک دن کے لیے بھی کام سے چھُٹی نہیں لی۔ وزیراعظم عمران خان نے 17 اگست کو وزارت عظمیٰ کے عہدے کا حلف لیا تھا۔عمران خان نے وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد ایک دن بھی چھٹی نہیں کی تھی۔کچھ ماہ قبل میڈیا رپورٹس میں یہ بتایا گیاتھا کہ عمران خان دن رات کام کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اب تک کوئی چھٹی نہیں کی۔تاہم اب اسی حوالے سے
معروف صحافی ہارون الرشید کا اپنے حالیہ کالم “پاؤں تلے گھاس” میں کہنا ہے کہ مہینوں تک ایک بھی چھٹی نہ کرنے والے آدمی کے پاؤں تلے گھاس اُگ آئی ہے۔ وہ بددلی کا شکار ہے۔معلوم نہیں کیوں؟۔مشکلات نہیں بلکہ اندازِ فکر کی خرابی ہوتی ہے۔جو ایک پرعزم آدمی کو اس حال سے دو چار کر دیتی ہے۔1992ء کے ورلڈ کپ میں پہلے چار میچ ہار کر بھی جس آدمی کو ورلڈ کپ جیتنے کا یقین تھا اس کا مایوسی میں مبتلا ہونا حیرت انگیز مہیں؟۔دونیاں چونیاں مانگ کر شوکت خانم اسپتال اورنمل کالج جیسے شاہکار جس نے تعمیر کیے۔ نمل کالج بہترین اداروں میں سے ایک ہے۔عمران خان کا اول دن سے مسئلہ ہے کہ وہ سیاست کو سمجھتے نہیں اور مشیر ان کے ناقص ہیں۔عمران خان بار بار دھوکہ کھاتا رہتا ہے۔مشورہ دینے والوں میں سے بعض اوقات سب سے بعد میں آنے والے کی بات مان لیتا ہے۔بددلی کا اندازہ بدھ کو ایوانِ وزیراعظم کے بیان سے ہوا۔یہ کہ گیس پر عائد ٹیکس کا معاملہ پھر سے سپریم کورٹ کے سپرد ہو گیا۔ ہارون الرشید کالم میں مزید لکھتے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان مایوسی کا شکار کیوں ہیں؟سمجھوتے پر آمادہ کیوں نظر آتے ہیں؟ یہ ان کا مزاج نہیں تھا۔ملک کی ممتاز ترین شخصیات میں ست ایک نے مجھے کہا تھا کہ عدالتیں اور نہ افواج، عمران خان نے
نواز شریف کو چلتا کیا۔ہمارے بس کی بات نہیں تھی۔کپتان کے بارے میں یہی تصور تھا کہ اس کے پاؤں تلے گھاس نہیں اگتی۔خود اس نے کہا تھا کہ حکومت تو کوئی چیز نہیں جان بھی چلی جائے تو پرواہ نہیں۔2007ء میں جنرل مشرف کے فرستادہ ایک باوردی جنرل نے دھمکی دی تو چمک کر کپتان نے کہا کہ جلد کرو میں بچ گیا تو چھوڑوں گا نہیں۔ابھی ابھی ایک زمہ دارا شخص نے بتایا ہے کہ خان صاحب تاخیر سے دفتر تشریف لاتے ہیں اور جلد چلے جاتے ہیں۔مہینوں تک ایک بھی چھٹی نہ کرنے والے آدمی کے پاؤں تلے گھاس آگ آئی ہے ۔وہ بددلی کا شکار ہے معلوم نہیں کیوں؟۔