ایک 18 سالہ لڑکی کا انتقال ہو گیا ۔ اس کی عمرابھی تھوڑی ہی تھی اور وہ جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ رہی تھی ۔ اس کا نام آمنہ تھا ۔ جب اس کی وفات ہو گئی تو اسے کی ماں اور بہنیں اسے میرے پاس لائیں تاکہ میں اسے عنسل دوں اور کفن پہناؤں ۔ شدت غم سے اس کے مان کارور و کر براحال تھا ۔ وہ اپنی بیٹی سے چمٹی ہوئی تھی
اور اس سے جدا ہونے کا نام ہی نہیں لے رہے تھی ۔میں نے بڑی مشکل سے اسے علیحدہ کیا اور عسل خانے کا دروازہ بند کر دیا تا کہ اسے اچھے طریقے سے عنسل دے سکوں ۔ میں نے جب اس کے چہرے سے کپڑا ہٹایا تومیں پریشان رہ گئی ۔ اللہ کے تم ! اس کے چہرے سے نور کی شعائیں جیسے اٹھ رہی تھیں جیسےنجف کی خوب تیز روشنی ہے ۔ میں اس کے نورانیے چہرے کے تا بانی دیکھ کر حیرت میں ڈوب گئی ۔ میرے پاس عسل کے لیے جو بھی لڑکیاں لائی جاتی تھیں ، ان میں سے کسی کا چہرہ مر جھا یا ہواہو تا تھا اور بعض سے سخت ناگوار بواٹھ رہی ہوتی تھی مگر اس لڑکی کا معاملہ الٹ تھا ۔ اس کا چہرہ تو روشنی سے چمک رہا تھا ۔۔ دورارج نسل میں نے دیکھا کہ اس کے دائیں اور بائیں ہاتھ کیے شہادت کی انگلی بھی اٹھی ہوئی تھی جیسے تشہد میں اٹھائے جاتی ہے۔میں نے کہا : ہونہ ہو یہ ایک پاکیزہ سیرت لڑکی ہے جسے اللہ نے اس کے کسی عمل صالح کیے وجہ سے عزت و تکریم سے نوازا ہے ۔ مجھے اس کی خوش قسمتی پر رشک آیا ۔
میں نے اسکی ماں اور بہنوں کو خوشی کی مٹھاس میں ڈوبی قدرے بلند آواز میں بلایا اور دروازہ کھول دیا ۔ اس کے ماں اور بہنیں دوڑ کر غسل خانے میں آئیں ۔ میں نے اس کی ماں کو مبارکباد دی اور ان تمام حیرت انگیز حیرت باتوں سے انہیں مطلع کر دیا جن سے مجھے دوراج عسل واسطہ پڑا تھا ۔ اس کی ماں نے اپنے تمام مادرانہ جذباتنچھاور کرتے ہوۓ اس کی پیشانی کو چوما اور ساتھ ساتھ روتے ہوۓ اللہ کے تعریف بھی کیے۔دو دن بعد اس کی ماں نے مجھے بلایا ۔ اس نے میر اشکر یہ ادا کیا اور کہا : میں آپ کو اپنی بیٹی آمنہ کے کپڑے اور اس کے پرسل چیزیں بھجواتی ہوں ، چونکہ آپ غریبوں اور مسکینوں کے گھروں کو جانتی ہیں ، اس لیے آپ انھیں انتھے ۔ نہ وہ تنگ تھے ، نہ باریک اور نہ چوٹے ۔میں نے دوسراڈ با کھولا تو اس میں اس کے کپڑے تھے ۔ وہ بھی پورے بازوؤں ، ڈھیلے ڈھالے اور محل جسم کو ڈھانپنے والے تھے اور انتہائی سادہ تھے ۔انھیں کوئیے لیس نہیں گئی ہوئی تھی نہ ہی وہ باریک تھے کہ جن سے جسم نظر آۓ میں جو جو کارٹر کھول رہی تھی ، میری حیرتاضافہ ہورہا تھا ۔ ایک کارٹرے میں اس کا اسکول کاسامان اور اس کے قلم کا ایک ڈبہ تھا ۔ میں نے ڈبہ کھولا تو اس میں سے ایک مسواک بھی نکلی ۔ اس کے سامان میں ایک ڈائری بھی تھی جس کے اکثر اوراق خالی تھے ۔ مبلغہ کہتی ہے : کارٹر بند کرنے کے بعد میں جلدی سے اپنے کپڑوں والی الماری کی طرف گئی ۔ میں نے اسےکھولا اور وہ تمام کپڑے نکال باہر پھینکے جو تنگ تھے یا باریکٹ تھے یا چھوٹے چھوٹے بازوؤں والے تھے ۔میں نے اپنے آپ سے وعدہ کیا تھا کہ میں آج کے بعد ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہنا کر وں گے جیسے یہ لڑکی پہنا کرتی تھی۔میں نے اس کی ڈائری کو اپنے پاس رکھ لیا
کہ میں اس میں اپنے لیکچر لکھا کروں گی جو اس لڑکیکے لیے صدقہ جاریہ بن جائیں گے ۔ وہ مبلغہ کہتی ہے میں نے آمنہ کی ای کو فون کیا اور اسے اس ماڈرن ازم کے دور میں بھی اسے اپنی بیٹی کو مکمل اسلامی لباس پہنانے پر مبارکباد دی ۔ اس کی ماں نے کہا : اس کے اندرایک اور بھی ممتاز خوبی تھی ۔ اس کادل ہر وقت نماز سے لگارہتا تھا ۔ جو نہی مؤذن اذاب دیتا ، وہکام کاج چھوڑ کر فورا اپنے رب کے سامنے سر بسجود ہو جاتی ۔ اللہ تعالی آمنہ اور اجے تمام عورتوں پر رحم فرماۓ جنھوں نے زمانے کے چلج کی پروانہ کرتے ہوۓ اپنے رب کی خوشنودی کی خاطر اسلامی تعلیمات کے مطابق لباس پہنا اور سنت کا دارج تقام کر ر کھا ۔ اس واقعے میں میری امت کی ان ماؤں ، بہنوں اور بیٹیوں کےلیے حوصلہ افزائیے کا سامان ہے جو زمانے کو خوش کرنے کے بجاۓ اپنے پرور دگار کو خوش کرنے کے فکر میں رہتی ہیں اور شریعت کے اصولوں کے مطابق زندگی بسر کرتی ہیں کہ رب تعالیے کل قیامت کے درجے انھیں سرخرو کرگا ۔ رجو مسلمان خواتین یورپ کی ماحول سے متاثر ہو کر نیم عریاں اور سخت چست لباسزیب تن کرکے معاشرے کی نظروں میں اچھابنے کی فکر میں اپنے رب کو ناراض کرتی ہیں ، ان کے لیے تعبیہ بھی ہے کہ وہ اپنے اس عادت سے باز آ جائیں اور اسلام کے مطابق زندگی بسر کرنے کا تہیہ کر لیں ۔ اس میں اج کی دنیاوی اور آخرت کی کامیابی ہے