میکے سے واپس آئی تو شوہر نے بولا صندوق کو ہاتھ لگایا تو طلاق دوں گا

آج جب میں دس دن میکے میں رہنے کے بعد واپس گھر لوٹی تو مجھے اپنا کمرہ بدلا بدلا سا معلوم ہوا رنگ کا ڈبہ رکھا ہوا تھا اور الماری میں بھی چیزیں بکھری پڑی تھیں مجھے اپنے شوہر کی یہ عادت ہمیشہ سے پسند نہیں تھی ہماری شادی کو چھ مہینے ہی ہوئے تھے۔

اور میں اس کی عادت سے تنگ آ گئی تھی لیکن آج جو تھا وہ معمول سے ہٹ کر تھا میری عادت ہے میں کمرے کو صاف ستھرا رکھتیں مگر اب کی بار تو حد ہو گئی شہر محسود نے ایک بڑا کالا صندوق لاکر کمرے میں رکھ دیا اس بات پر میری ان سے لڑائی ہوگی منیر کیا ہے اپنے کمرے میں اتنا بڑا صندوق رکھ دیا وہ بھی بالکل سامنے کے کمرے کو صاف ستھرا رکھنا پسند ہے میں نے منیجر سے کہا تو وہ الٹا میری بات پر جواب دینے کی بجائے غصہ ہو گئے بولے تم اپنے باپ کے تم اپنے باپ کے گھر نہیں ہوں بلکہ اپنے شوہر کے گھر ہوں اس لئے میں جیسا بھی کمرے کو رکھنا چاہوں یہ کمرہ ویسا ہی رہے گا مگر اتنی صفائی پسند ہو تو کوئی اور بندوبست کر لو اپنے شوہر کا ٹکا سا جواب سن کر سر ان کا منہ دیکھتی رہ گئی یہ کب سے ایسا رویہ رکھنے لگے میری تو سمجھ سے باہر تھا بہرحال میں نے کوئی بات نہیں کہی اور خاموش ہوگئی جانتی تھی کہ دو دن تک انہیں منع ہیں لوگوں کی وجہ سے واپس آئی تو دیکھا شوہر موصوف نے نکالا صندوق میرے بیٹھ کے ساتھ بالکل چھوڑ کر رکھا تھا یعنی اگر اترتی تھی تو مجھے بس سے اترنے میں بھی مشکل ہوتی دیکھ کر لگا جیسے مجھے تنگ کر رہے ہو ۔

میں ان سے پھر انہیں بڑی منیر کمرے کی حد تک تو ٹھیک تھا لیکن آپ نے اس صندوق کو میرے گھر کے پاس رکھ دیا وہ بھی میری سائیٹ پر میری بات کر انہوں نے دیا میں نے کہا نا کہ میرا کمرہ ہے اگر تمہیں تو جا کر دوسرے کمرے میں بیٹھا ہوں میرے شوہر کی یہ بات سن کر مجھے بہت دکھ ہوا کہ راستے میں ہے کیا آپ اسے یہاں کی رکھا ہے میں نے پوچھا اس صوبے میں جو بھی ہے وہ میں تمہیں کیوں بتاؤں یہ میری مرضی ہے میرا کمرہ ہے میں اسے دیکھ لوں گا پتا نہیں آج میرا شوہر بار بار اپنا حق کیوں جاتا رہا تھا حالاں کہ اس سے پہلے ہمیں ایسی کوئی لڑائی نہیں ہوئی تھی میری آنکھوں میں آنسو آگئے جب شوہر ہیں بے رخی برتے تو عورت اور کس سے گلہ کرے میں نے اپنی باجی سے شام کو یہ بات کہی بولی کہ شاید کو تمہارے میکے میں رہنے کی وجہ سے چڑھا ہو گیا حکام اسے محبت تو اس کی پسند کے کھانے بنا اسے یقین دلاؤں کہ تم اسی کے لیے ہوں پھر وہ اپنا غصہ چھوڑ دے گا ماضی کی بات معقول تھی میں نے اپنے شوہر کی پسند کے کھانے بنا لیے مگر وہ پھر بھی خوش نہیں ہوئے اور مجھے بہت عجیب لگ رہا تھا مجھے لگا ہوں کھانے کی میز پر انہوں نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی۔

ان کی طرف دیکھتی رہی مگر انہوں نے ایک بار بھی مر کر میری طرف نہیں دیکھا آخر اس وچ آ شک کاروباری پریشانی ہوگی کوئی گلا نہیں کیا رات کو فارغ ہو کر میں کمرے میں گئی تو عجیب بات دیکھنے کو ملی کہ کمرے کا دروازہ اندر سے بند تھا مجھ سے کیا چھپانے کی عادت پڑ گئی میں نے سوچا دروازہ کھٹکھٹایا تھا مگر شوہر نے مجھے کوئی جواب نہیں دیا تھوڑی دیر کے بعد دروازہ دوبارہ نوکیہ انہوں نے غصے سے دروازہ کھلا اور بولے تھوڑی دیر کے لیے باہر نہیں رکھ سکتی کیا یہ حکم رواں تمہارے باپ کا ہے جو بار بار پھر آ رہی ہوں دروازہ ان کی یہ بات سن کر میں اندر سے ٹوٹ کر رہ گئی گی تو وہ میرے صبر کو صحیح معنوں میں آزما رہے تھے کافی دیر میں دوسرے کمرے میں بیٹھی رہی مگر پھر سوچا کمرہ میرا کا مجھ پر اور میرا اس پر حق ہے جا کر دیکھنا چاہیے کہ دروازہ کیوں بند ہے میں جا کر خاموشی سے دروازہ کے باہر کھڑی ہو گئی دیکھا تو کمرے کے اندر سے کسی عورت کی آوازیں آ رہی تھیں یہ اچھی بات تھی خدایا یہ کیا ماجرہ ہے میں نے دل میں سوچا تم مجھ سے رہا نہیں گیا میں غصے سے پاگل ہو گی میرے دروازے پر زور زور سے نکلا تے مانگنا شروع کر دی ہے دروازہ مجبور ہو کر کھول دیا۔

مگر ان کے چہرے پر غور سے کیسے تاثرات تھے کہ ایک لمحے کو کام کر رہے گی انہوں نے جلدی سے کھلے ہوئے صندوق میں بند کیا اس پر تالا لگا لیا اور کمرے سے پھوٹتے چلے گئے ان کا فون بھی بستر پر ہی پڑا ہوا تھا یہ شرط بھی نہیں کر سکتی تھی کہ وہ کسی عورت سے بات کرتے کرتے تھے پھر لگا کے ہیں اس صندوق میں کوئی عورت ہی نہ چھپا رکھی ہو مگر یہ کیسے ممکن ہے میں نے خود سے ہی سوال کیا ہے میں ہوگا تو سے کھانے پینے کی ضرورت ہوگی ایسا نہیں ہو سکتا کہ انسان کو صندوق میں قید کر دیا جائے اور وہ بھی کوئی مسئلہ ہو گی جو ان کے لیے صندوق میں بند ہوکر پیچھے کی میں نے سوچا اور اس اہم خیال کو اپنے دل سے نکال دیا مگر میں اپنی شوہر کی روشنی سے ابھی بھی پریشان تھی لیکن میں نے باجی کو گھربلا ان سے کہا کہ آپ مجھ سے بات کریں تاکہ وہ اس مسئلے کو حل کرے ورنہ میں اس شخص کے ساتھ نہیں رہ سکتی ہے یا نہیں چھوٹی باتوں پر دستخط نہیں کئے جاتے تم صبر کرو تمہارا شوہر خود ہی سہی ہو جائے گا بس کچھ دن اور انتظار کرو اگر ایسا ہی رہا تو میں تمہاری نظروں سے بات کروں گی پھر بھی مناسب نہیں انداز کرے میرے اپنے شوہر سے لڑنے کی بجائے خود کو کسی نہ کسی عبادت میں مصروف کرو۔

میری ایک سہیلی 35 روزانہ بات ہوتی تھی۔ ویسے بھی کافی شہرت طبیعت کی مالک تھی مجھ سے عمر میں کافی چھوٹی تھی اس کی دوستی مجھ سے خفا ہو گئی تھی میں جب بھی اسے کھانے کے لئے بلاتی وہ ہمیشہ جاتی ہیں پینے والی لڑکی تھی کسی بات کو دل پر نا لیتی اور بات کرنے کے لئے ہمیشہ میرے ساتھ فون پر موجود ہوتی اس کی یہی بات مجھے اچھی لگتی تھی میرے اس زندگی بنتی سے کہا تم آجاؤ ہم مارکیٹ میں شاپنگ کرنے چلتے ہیں منڈی مجھ سے باتیں کرتی تو میرا دل ہلکا ہو جاتا اس نے مجھ سے کہا کہ بلوچ کے آ جاؤ میں بھی گھر سے تیار ہو کر نکل گئی مگر میں جانتی تھی کہ بیٹی ہمیشہ لیٹ آئے گی اس لیے میں کپڑے دیکھنے ایک دکان میں چلی گئی ساتھ ساتھ میں اپنا فون بھی دیکھ رہی تھی کہ شاید پر تھی کہ شاید بندی کا فون آ جائے کافی دیر گزر گئی تھی ابھی تک اس نے مجھ سے رابطہ نہیں کیا تھا اب مجھے پریشانی ہو نے لگے بندے کو فون کرتی میں دکان سے باہر نکلی مجھے لگا کوئی میرا پیچھا کر رہا ہے قدم بڑھانے لگی تھوڑا آگے جا کر میں پیچھے مرنے کو رہی تھی کہ کسی نے میرے منہ پر رومال رکھا کھینچ کر مجھے گاڑی میں ڈال دیا میرے ہاتھ مارے نکلے کسی نے اس قدر مضبوط گرفت رکھیں۔

کہ مجھے چیخنے چلانے کا موقع بھی نہیں دیا میں یوں ہی ہاتھوں مٹھی گاڑی میں بٹھا دی گئی گاڑی میں مجھے ہوش نہ رہا میرا ذہن تاریکی میں ڈوب گیا ہوش و حواس سے بیگانہ ہو گئی تو گاڑی اپنے سفر پر چل پڑیں کافی دیر کے بعد گاڑیاں رکی میرا ذہن میں تھا مجھے اسی طرح سیر کر دروازے سے باہر نکالا گیا میں نے دیکھا ایک نگاہ پر چہرہ مجھے کمرے کے اندر چلا رہا تھا میری تو جان نکلی جا رہی تھی میں اپنے شہر کے بارے میں سوچ رہی تھی اس کی آمد سے پہلے ہی خراب تھا اگر اس کے سب پتہ چلے گا کہ وہ مجھے اس سب کے ساتھ قبول کرے گا ہرگز نہیں میرا دل مجھے ترسانے لگا رہی تھی میں ہوش میں آ چکی تھی شاید تھوڑی دیر کے لئے ہیں مجھے بے ہوش کیا گیا تھا وہ دل ہی دل میں اپنے رب سے مدد مانگنے لگی میں سوچ رہی تھی نجانے میرے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا ایک کمرے میں بیٹھی تھی کہ تب بھی کمرے کا دروازہ کھلا رہے گی روشنی سے نہلا دیا ایک لمبا چوڑا لحیم شحیم شخص کھڑا تھا کہ قطب کا مطلب میرے شوہر کیسی لگتی تھیں میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکا تو میرے شوہر کی آنکھیں ہیں میرے دل کو تسلی ہوئی تو کیا بغیر مجھے بچانے آئے ہیں میرے دل میں سوچ میں نے دل میں سوچا۔

اگلے ہی لمحے اس شخص نے بتا دیا یہ دیکھ کر میری جان میں جان آئی کے سامنے کھڑا شخصمیں ان کے پاؤں پڑ گئی میں جانتی تھی ان کے دل میں میرے لئے کوئی نہ کوئی غلط فہمی ضرور پیدا ہو گی تب بھی ان سے معافی مانگنے لگے انہوں نے مجھے بالوں سے کھینچ کر اوپر اٹھایا جائے کی توقع کر رہی تھی مگر ان کی باتیں تو کسی طوفان کا پیش خدمت ہیں تب انہوں نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر انتہائی سفاکانہ لہجے میں پوچھا بتاؤ تم اس سے بولے جا رہی تھی منیر کیسی باتیں کر رہے ہیں میں نے تڑپ کر کہا آپ ایسا سوچ بھی کیسے سکتے ہیں کہ میں کسی سے ملنے جاؤں گی میری طرف دیکھ کر کہا جو پوچھا ہے اس کا جواب دو مزید سختی سے کہا بونیر میں بچی سے میری سہیلی ہے مجھ سے اچھا تو پھر وہ آئے کیوں نہیں تو مجھے دیکھ کر ادھر کیوں ہو رہی تھی والوں نے مجھے دیکھا تھا نہ نہیں منیر میں نے آپ کو نہیں دیکھا میں نے حاضر جوابی سے کام لیا ہو تو مجھے نہیں دیکھ کر وہاں سے باہر نکلی تھی ورنہ تو تم اپنے دوست سے ملنے جا رہی تھی نہ کہا لگتا تھا جیسے آج چلے گے جانتی ہو میں تمہیں یہاں کیوں لایا ہوں انہیں تقریباً مجھ پر چلانے لگے نہیں کیا آپ مجھے یہاں لائے ہیں مجھ پر حیرت کا ایک اور پہاڑ ٹوٹ پڑا ۔

ملا کوئی شوہر اپنی بیوی کو اکٹھا کر کے دور دراز گھر میں کیوں نہ تھا اس لئے کہ تمہیں تمہارے کی سزا دے سکوں آج تمہاری چیز سے ان کمروں کو سنائی دیں گی تو ہی اذیت ناک موت مارے گا اور کبھی تمہاری بے وفائی کو نہیں بھولوں گا آپ مجھے ایک موقع دیں میں نے اس وقت مسئلہ تو ٹھنڈے دماغ سے کام سے کام لیا ان کے سر پر جانے کون سا بھوت سوار تھا میں آپ کو سب کچھ بتاتی ہوں میں ابھی بندی کو کال کروں گی آپ کے سامنے بات کروں گی میں باتوں باتوں میں اس سے پوچھو گی آپ خود اندازہ لگا لیجئے تھا کہ وہی آج مجھ سے ملنے آ رہی تھی تھی کسی سے ملنے نہیں گئی تو بھی میرے اپنے پرس سے فون نکالا تو اسپر بنتی کی فورس کی تو بہت غصے میں تھی بولی میں تمہارا انتظار کرتے کرتے چلیں گی لیکن تم نہیں آئی مجھے بہت برا لگا تو آئندہ تم سے ملنے کبھی نہیں آؤں گی تمام لوگ خود کو نہ جانے سمجھتے کیا ہو مدینے کی باتیں سن کر میرے شوہر کو یقین ہو گیا کہ میں کسی لڑکے سے نہیں بلکہ اپنی سہیلی سے ملنے جا رہی تھی تب منیر نے میرے ہاتھوں کو لے اور مجھے گاڑی میں ڈال کر گھر لے آئے وہ بہت شرمندہ لگ رہے تھے ان کی چھٹی ہوئی تھی مگر میں بہت کچھ سوچ کے ساتھ اپنی بقیہ زندگی خراب نہیں کروں گی۔

جانتی ہوں کیسے شکیل انسان کو برداشت کرنا ساری زندگی مشکل ہوتا ہے گھر آکر ان کے پاؤں پڑ گئے خدا کے لیے سیدھا مجھے معاف کر دو میں نے تم پر شک کیا تب بھی اس صندوق سے آواز آنے لگی جو انہوں نے میرے بیٹھ کے قریب رکھا تھا میں یہ سن کر حیران رہ گئی کہ یہ آواز کسی اور کی نہیں بلکہ خود کال پر بات کرتے ہوئے میری آواز تھی یہ کیا ہے منیر اس کی طرف اشارہ کرکے کہا میں نے کہا نہ میں تم پر شک کرنے لگ گیا تھا شادی کے بعد جب تم پہلی بار میں کی گئی وہاں جاکر تم بہت خوش تھیں جبکہ سسرال میں تمہارا یہ عجیب سا تھا تم نے صحیح سے مجھ سے بات ہی نہیں کی جبکہ میں کیے جاتے ہیں تمہارا چہرہ کھل اٹھا میں نے تمہاری اور بھی کی حرکتوں سے اس بات کو محسوس کیا کہ تم صرف میں کہاں جا کر خوش ہوتی ہوں یہاں خوش ہوتی ہوں یہاں تو میرے ساتھ خوش نہیں ہوتی جب میں نے تمہارا پیچھا کیا تو پتہ چلا تو فون پر کسی سے باتیں کرتی ہو میرے اندازے کے مطابق تو کوئی لڑکا تھا لیکن اس کے ساتھ تمہارا دوستانہ رویہ دیکھ کر میرے تن بدن میں آگ لگ گئی تب میں نے تمہاری جاسوسی کرنے کا سوچا میرے تمہارے میکے جانے کےتاکہ اس میں تم جو کچھ بھی بات کرو ریکارڈ ہوتی رہے۔

اور میں گھر آنے کے بعد تمہاری آواز سنتا تھا کہ تم دن بھر کس کس سے بات کرتی رہیں آج کل دنیا بہت ترقی کر چکی ہے ہر قسم کے حالات دستیاب ہے میرے دوست نہیں مجھے یہ مشورہ دیا تھا کہ تم اپنی بیوی کی جاسوسی اس طریقہ سے روسی اس طریقہ سے کروں تو کبھی بچ کر نہیں جائے گی منیر کی بات میری سمجھ میں میری سہیلی پنڈی جو مجھ سے عمر میں کافی چھوٹی تھی اکثر مجھ سے لڑکے کی طرح بات کرتی مجھے کہتی تھی کہ میں لڑکی نہیں ہوں بلکہ ایک سخت قسم کا مرد ہوں جسے زندگی میں کوئی ہرا نہیں سکتا اس کی بچگانہ باتیں تھیں اسی وجہ سے زندگی سے بھرپور یہ لڑکی مجھے بھی پسند ہیں اور میری اس سے دوستی بھی اسی بنیاد پر ہوئی تھی مگر بنتی مجھ سے بات کرتے وقت اس بات کا احساس نہ کرتی کہ میں شادی شدہ عورت ہوں اس کی ان باتوں کی وجہ سے میرا شوہر مجھ پر شک بھی کر سکتا ہے ہے وہ کہتی ہیں کہ جو مردوں پر شک کرے وہ تمہارا نہیں تو اس کی باتیں سن کر ہنس دیتی تھی مگر میرے شوہر کو یہی باتیں مشکوک لگی اور انہوں نے مجھ سے پوچھنے کی بجائے کرنا شروع کر دیں کیوں غلط فہمیاں مزید بڑھتی گئی اور زندگی مشکل ہوتی گئی اس دن تم نے مجھے بنا لیا اس نے اپنے گھر والوں سے صاف کہہ دیا

کہ میں اسے شکیل خان کے ساتھ ہرگز اپنی زندگی برباد نہیں کرسکتی میری امی ابو نے اس معاملے میں میرا بھرپور ساتھ دیا اگلے ہی دن ابو نے خلع کا کیس دائر کرنے کا فیصلہ لے لیا تھا ہفتے بعد کون سے شہر کو نوٹس چلا گیا تب ان کو ہوش آیا اور اپنے ہاتھوں پر چلتے میرے ماں باپ کے گھر آئے انہوں نے مجھے لاکھ سمجھانے کی کوشش کی بولے کہ مجھ سے غلطی ہوگئی مگر میرے ان کے کسی بات پر یقین نہیں کیا میں جانتی ہوں اور یہی سمجھتی ہوں کہ ایک شک کرنے والے مرد کے ساتھ زندگی کسی نہ کسی عذاب سے کم تم نہیں میرے منہ سے کہہ دیا کہ میں ان کے ساتھ زندگی کا ایک منٹ مزید پکائیں نہیں کروں گی مگر وہ ہار ماننے پر راضی نہ تھے بولے میں کسی نہ کسی طرح تمہیں منع ہے لوکاں پر میں نے بھی ضبط کی انتہا کردی خلع لینے کے ایک مہینے بعد میرے شوہر نے مجھ پر قاتلانہ حملہ مجھ پر قاتلانہ حملہ کیا یہاں تک کہ میرا چہرا بس کرنے کی کوشش کی اسے نیک شخص سے یہی بات کی توقع کی جاسکتی تھی میں جانتی ہوں کچھ مرد اپنی شکست کو قبول نہیں کر پاتے وہ عورت پر اپنا حق سمجھتے ہیں چاہتے ہیں کہ عورت ان کے بعد کسی اور کے قابل نہ رہے حالانکہ یہ ذہنیت ایک بیمار سہل ہونے کی نشانی ہے اپنی عدت مکمل کرنے کے بعد ابو نے لندن سے اپنے ایک دوست کے بیٹے سے میری شادی کر دیں ان کا بیٹا پڑھا لکھا سلجھا ہوا ذہین نوجوان تھا اس نے نہ صرف ماضی کے غم بھلانے میں میرا ساتھ دیا بلکہ زندگی میں ہر موڑ پر مجھے ایک نیک کوتانی طاقت بخشی سے ایک خاتون چکی ہوں دنیا میں جہاں برے لوگ ہیں اچھے لوگ بھی ہیں خدا تعالی سے دعا کرتی ہوں کہ اللہ تعالی ہر لڑکی کے نصیب اچھے کرے ک

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *