میرا تعلق پولیس کے محکمے سے رہا ہے ۔ یہ ان دنوں کا واقعہ ہے جب پولیس کے سپاہیوں کو کچھ زیادہ سہولیات میسر نہیں تھیں ۔ ہم اپنے ذاتی گھوڑوں پر ہی سفر کیا کرتے تھے اور جب چھٹی پر ہم اپنے گاؤں جاتے تو ہم سے سرکاری بندوقیں رکھوا لی جاتی تھیں ۔ ہمارے پاس اپنی حفاظت کے لئے صرف خنجر وغیرہ ہی ہوتے تھے ۔ تقریباً چھے ماہ بعد ایک دن میں اپنے گاؤں چھٹی پر جا رہا تھا تو
رکھوا لی جاتی تھیں ۔ ہمارے پاس اپنی حفاظت کے لئے صرف خنجر وغیرہ ہی ہوتے تھے ۔ تقریباً چھے ماہ بعد ایک دن میں اپنے گاؤں چھٹی پر جا رہا تھا تو مشنر صاحب نے کہا : ” کافی اندھیرا ہو گیا ہے او تمہارے گاؤں کے راستے میں جنگل بھی پڑتا ہے ، اور صبح چلے جانا ۔ مگر اپنے بیوی بچے سے ملنے کے لئے ۔ میرا دل بے قرار ہو رہا تھا ۔ میں نے کہا : ’ ’ صاحب ! ایک عمر
اٹھی راستوں اور جنگل میں گھومتے پھرتے گزاری ہے یہ راستے ، یہ وادیاں حتی کہ یہاں کی مٹی بھی میری دوست ہے ۔ صاحب یہ سن کر مسکرا دیے ۔ موسم بہت خوب صورت ہو رہا تھا ۔ گھوڑا تیز رفتاری سے ہی میں نے گھوڑے رواں دواں تھا ۔ جنگل شروع میں جنگل سے میری سی ہلکی کر بہت خوب صورت یادیں جڑی ہوئی تھیں ۔ حالانکہ جنگل میرے گاؤں سے کافی فاصلے پر تھا ، مگر بچپن میں
ہم سارے دوست ہر ہفتے یہاں آکر خوب شرارتیں کرتے ، نہر میں نہاتے اور درختوں پر چڑھ کر تازہ پھل توڑ کر کھاتے تھے ۔ یہ سب سوچ کر میرے چہرے پر مسکراہٹ آگئی اچانک مجھے کسی بچے کے کھلکھلانے کی آواز آئی ۔ ۔ میں چونک گیا اور جلدی سے گھوڑے کو ہلکی تھپکی دی پالتو جانور اپنے مالک کے اشارے سمجھتے ہیں ۔ اس نے بھی دم سادھ لیا اور ہنہنایا نہیں ۔ میں خوف زدہ ہونے کے بجاۓ فوراً کھوج میں لگ گیا کہ یہ آواز کس
سمت سے آئی ہے ۔ کچھ فاصلے پر ہی کھنی جھاڑیوں کے پیچھے سے مجھے دوبارہ بچے کے ہننے کی آواز آئی ۔ میں نے گھوڑے کو ایک طرف کھڑا کیا اور آہستہ سے تھوڑی جھاڑیاں ہٹا کر دیکھا تو سال بھر کا ایک نہایت خوب صورت گول مٹول سا بچہ اکیلا بیٹھا ہوا ہے ۔ اچانک ایک درخت کے پیچھے سے ایک بھیڑیا نمودار ہوا ۔ اس نے اپنی تھوتھنی سے بچے کے گدگدی کی تو بچہ پھر کھلکھلا کر ہنس پڑا ۔ بھیڑ یا بھاگ کر پھر درخت کے
پیچھے چپ گیا ۔ میں معاملہ سمجھ گیا ۔ یہ بھیڑیوں کی فطرت ہوتی ہے کہ جب وہ کسی انسانی بچے کو کھانے کیلئے اٹھا کر لاتے ہیں تو پہلے اس کے ساتھ خوب کھیلتے ہیں جب دل بھر جاتا ہے تو چیر پھاڑ کر کھا جاتے ہیں ۔ میں چاہتا تو خنجر سے بھیڑیے پر حملہ بھی کر سکتا تھا ۔ مگر بچے کی وجہ سے کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتا تھا میں نے سوچ لیا کہ مجھے کیا کرناچاہیے ۔ کیسے ی بھیڑ یا بچے کو گدگدی کر کے درخت کے پیچھے چھپا ، میں ۔
ایک ہی جست میں بچے تک پہنچا اور اسے دبوچ کر بھاگا آناً فاناً اپنے گھوڑے تک پہنچا اور گھوڑے پر انچل کر سوار ہو گیا اور گھوڑا دوڑا دیا۔اس طوفانی کارروائی سے گھبرا کر بچے کر کے مسلسل رو رہا تھا ۔ جنگل پا ایک جگہ گھوڑا روک کر میں نے پہلے بچے کو بہلایا ۔ وہ خاموش ہوا تو میں نے اسے آرام سے آگے بیٹھالیا ۔ میں نے گھوڑے کا رخ اس جنگل کے قریب ہی ایک گاؤں کی طرف کر دیا۔میں گاؤں کے قریب ایک کھیت میں پہنچا
ہی تھا کہ کچھ لوگ مشعلیں لئے ایک طرف جاتے نظر آۓ ۔ میں نے آواز دے کر انھیں اپنی طرف متوجہ کیا اور بچے کے متعلق پوچھا ۔ ایک آدمی بے تابانہ آگے بڑھا ۔ اس کا مرجھایا ہوا چہرہ بچے کو دیکھ کر کھل اٹھا ۔ اس نے خوشی سے چیختے ہوۓ کہا : ” گڈو ۔ ‘ ‘ بچہ بھی فوراً اس کی طرف لپکا۔وہ بچے کو گود میں لے کر دیوانہ وار اس کو چوم رہا تھا ۔ میں گھوڑے سے اتر گیا ۔ گاؤں والوں کے پوچھنے پر میں نے انھیں تمام ماجرا کہہ سنایا ۔ بچے کے
باپ کا بس نہیں چلا رہا تھا کہ میرے پاؤں سے لپٹ جاۓ ۔ روتے روتے اس کی ہچکیاں بندھ گئیں۔میں نے اسے تسلی دیتے ہوۓ کہا : ’ ’ اللہ پاک کا جتنا شکر ادا کرو ، کم ہے ۔ وہی زندگی بخشنے والا ہے ۔ “ اس آدمی نے مجھ سے میرا نام اور گاؤں کا نام پوچھا ۔ میں نے سب بتا دیا اور گھوڑے پر سوار ہو گیا۔اس آدمی نے گھوڑے کی باگ پکڑ لی اور التجا بھرے لہجے میں بولا : ’ ’ صاحب ! میری بیوی روتے روتے بے ہوش ہو گئی ہے اور گڈو میں تو میرے
ماں باپ کی بھی جان ہے۔دونوں رو رو کر نڈھال ہو چکے ہیں انھیں جب پتا چلے گا کہ گڈو کی جانب بچانے والا ہمارا محسن ایسے ہی چلا گیا تو وہ بہت ناراض ہوں گے ۔ کچھ اور لوگوں نے بھی اس کی تائید کی۔میں نے مسکرا کر کہا : ” میرے بھائی ! مجھے کسی چیز کی چاہ نہیں ۔ آپ لوگوں کی خوشی ہی میرے لئے انمول تحفہ ہے ۔ بس اپنے والدین سے کہنا کہ مجھے ہمیشہ اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔چونکہ میرے اپنے والدین انتقال کر چکے تھے
اسی لئے میں تمام والدین کا بے حد احترام کرتا تھا ۔ اس وقت رات کافی ہو چکی تھی ، میں نے ان سب کو اللہ حافظ کہا اور اپنے گاؤں کی طرف چل دیا ۔ کچھ سالوں بعد اپنے بچوں کے مستقبل کی خاطر پولیس کی نوکری چھوڑ کر اور گاؤں کی زمینیں اور گھر بیچ کر میں شہر آگیا ، لیکن جب تک میں اپنے گاؤں میں رہا ، وہ آدمی سال میں دوبار لازمی میرے پاس آتا اور ہمیشہ موسمی پھل ، گڑ ، خشک میوے اور بچوں کے لئے
تحفے لاتا ۔ میں اس غریب آدمی کا خلوص دیکھ کر بہت نادم ہوتا اور ہمیشہ اسے منع کرتا ، مگر وہ بھی ہمیشہ میرے اچھے عمل کا ذکر کر کے آبدیدہ ہو جاتا ۔ آج میں خوش حال زندگی گزار رہا ہوں۔میرے دو بیٹے سول انجینئر اور بیٹی ڈاکٹر ہے ۔ مجھے اکثر ایسا لگتا ہے جیسے میری ایک نیکی نے میرے بچوں کے لئے بھی راستے آسان کر دیئے ہوں ۔