ایک فاحشہ عورت نے اللہ کو کس روپ میں دیکھ لیا اللہ کا ایک

بنی اسرائیل کالجرار بن کشف نامی ایک عبادت گزار شخص نقل و دن بھر روزہ رکھتا اور رات بھر عبادت کرتا ایک رات جب وہ پچھلے پہر سویا تو اس نے خواب دیکھا کہ اس کو اپنے شہر کی سب سے خوبصورت فاحشہ عورت بتوں کی پوجا کرتے دیکھائی گئی اور اللہ ملا کہ اس کو تبلیغ کرو جب آنکھ کھلی تو الجرر بن کشف بہت حیران ہوا کہ میں اس فاحشہ کے ڈے پر کیسے جاں ہیں تو سلے لوگ مجھے شک کی نگاہ سے دیکھیں گے ۔ خیر اس نے خواب کو اہمیت نہ دی اور دن بھر روزہ رکھا اور رات سدی عبادت کی جب صبح اس کی آنکھ کھل گئی تو اس کو پھر وہی خواب آیا لگانا

عابد کو یہی خوب تین راتوں میں آیا تو چو تھی صبح وہ اس عورت کے گھر ای گیاہ فاحشہ نے جب دیکھا کہ شہر کے سب سے بڑے عالم میرے گھر میں آۓ ہیں تو اس نے خوب خدمت کی جب بزرگ علید نے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا کہ میں تو تمہیں ایک خدا کی عبادت کے لیے تبلیغ کرنے آیا ہوں تو فاحشہ کہنے لگی کہ بے شک میں بتوں کی پوجا سے اکتا گئی ہوں اور میں ایک خدا کی قائل ہوں لیکن میں تب تک ایمان نہیں لاؤ گی جب تک اللہ پاک کو خود دیکھ نالوں ۔ و بزرگ بہت پریشان ہوا کہ اس عورت نے کیسی عجیب شرط رکھ دی

ہے کہ اس کو کیسے اللہ کا دیدار نصیب ہو گا غیر اس علیہ نے اس فاحشہ عورت سے یہ وعدہ لیا کہ اب وہ دوبلہ جسم کا کلوبہ نہیں کرے گی ۔ کچھ ہی دن گزرے کہ گھر میں فاقوں کا عالم شروع ہو گیا اور آہستہ آہستہ اس عورت نے گھر کا سلک بیچنا شروع کر دیا اس کی صرف ایک ہی چل سال کی بیٹی تھی ایک دن جب وہ بھوک کے ملے رونے لگی تو فاحشہ نے اپنے گھر سے تانبے کی ایک دیجی پکڑی اور بیچنے کے لئے بلا چلی گئی وہ جانتی تھی کہ اس دینی کی قیمت دو سیکیوں سے زیادہ نہیں ہے بند میں وہ جس بھی تاباسد کے پاس دیچی لے کر جاتی تو

ہر تشبہ سال اس کی دینی کی بجاۓ اس کے چست بدن کی قیمت لگاتا اور اس کو گناہ کی دعوت دیتاہ جب وہ کسی کو دیگچی دیکھاتی تو اکثر تانبہ سال تو اس کا ہاتھ ہی پکڑ لیتے وہ یاد باد لوگوں کو بتاتی کہ وہ اقبہ کر چکی ہے ب یہ کام نہیں کرے گی ، خیر کوئی اس کو اس سکے تو کوئی سو سکوں کی آفر کر دینا کہ میں جان چکی تھی کہ یہ سب لوگ ہوس کے پجاری ہیں بس میرے جسم کی قیمت لگا رہے ہیں جبکہ اس دیجی کی قیمت صرف دو سکے ہیں ، وہ مایوسی کے عالم میں یہ سوچتی ہوئی بند سے نکل رہی تھی کہ یہ کیسے ایمان والے لوگ ہیں جو مجھیں خریدنے بیٹھے

ہیں اس سے تو بہتر یہی ہے کہ میں بے ایمان ہی ہوں اتنے میں اچانک ایک بدیش جون لڑکا اس فاحشہ کو آوز لگاتا ہے بہن کیا اس دیچی کو مجھے بیچیں گی یہ بلند کی بالکل آخری دکان تھی فاحشہ عورت نے وہ دیچی اس کی میز پر رکھ دی اس پالیش لڑکے نے دیچی کولٹ پلٹ کر دیکھا کہ بنافاحشہ کے چہرے پر نظر ڈالے دو سکے میز پر رکھ دیے ۔ اس عورت نے سکے اٹھاۓ اور گھر آگئی وہ اس لڑکے کے رویے سے بہت متاثر ہوئی کہ چلو کوئی تو ملا جس نے میری شکل و صورت کی نہیں بلکہ دیچی کے پیسے دیے ہیں ۔ اگلے دن اس فاحشہ عورت نے پچٹا

پرانا برقع پہنادر نقاب کر کے اس طرح کی ایک دیچی پڑی اور دوبلہ اسی سانے کے بعد میں چلی گئی ۔ اس نے اپنی ایسی حالت بتائی کہ دیکھنے والے کو لگے کہ یہ ایک غریب بڑھیا ہے وہ سب تاجروں کے پاس گئی وہ جس تابہ ساز کو اپنی دیچی دکھاتی تو وہ اسے تول کر کہتا دو سکے ملیں گے وہ 1 عورت کہتی چھ سکوں میں پہوں گی پر کوئی تامہ سادا سے دوستوں سے زیادہ دینے کو تیار نہ تھاوہ بہت حیران ہوئی کہ یہی لوگ کل ای دیچی کو ای سے سو سکوں میں خریدنے کے لیے تیار تھے اور آج جب میں کہہ رہی ہوں کہ میں ایک غریب عورت ہوں اور میری بیٹی پیار ہے

تو کوئی بھی مجھے اس دیجی کے بدلے چھ سکے دینے کو تیار نہیں اس کا مطلب ہے کہ یہ لوگ اللہ کے پجاری تو نہیں ؟ یہ ہوس پرست ضرور ہیں اور خوبصورت جسموں کے پجاری ہیں ، خیر آخر میں اس بدیش خوبصورت لڑکے کی دکان پر پہنچی جس نے کل اسی طرح کی دیگچی دو سکوں میں خریدی بھی وہ نوجوان اپنے کام میں مصروف تھا غریب بڑھیا کے ہیں میں اس فاحشہ عورت نے کہا میں یہ برتن بیچنے کے لئے لائی ہوں اور میں اسے پر سکوں میں ہوں گی ، کیا آپ چھ سکے دیں گے ؟ تبہ سد نے پوچھاچھ سکوں میں کیوں ؟ اس عورت نے بات بتاتے

ہوۓ کہامیری بیٹی بیلا ہے ڈاکٹر نے اس کے لیے نسخہ لکھا ہے جس کی قیمت چھ سکے ہی ہیں تہ سلانے دیچی لے کر کہامل یہ دیچی بہت عمدہ نہایت قیمتی ہے اگر آپ بیچنا چاہتی ہیں تو میں اسے ای سکوں میں خریدوں گاو برقعے میں لپٹی بڑھیا عورت کا روپ دھلے اس فاحشہ عورت نے کہا کیا تم میرا مذق تو نہیں بنار ہے ۔ اس لڑکے نے کہا ہر گز نہیں میں واقع اس دینی کے اس سکے دے دوں گا یہ کہہ کر اس نے برتن لیالہ بوڑھی عورت کے ہاتھ میں اس سکے تھما دیے ۔ وہ عورت بہت حیران ہوئی اور دعا دیتی ہوئی جلدی سے اپنے گھر کی طرف چل

پڑی الجر بن کشف جنہوں نے اس فاحشہ عورت کو ایمان لانے کو کہا تھا اور اس عورت نے یہ شرط رکھی تھی جب تک میں اللہ کو نہ دیکھ لوں میں ایمان نہیں لاؤں گی وہ عابد کہتے ہیں کہ دونوں دن عورت کے ساتھ ہونے والے واقعات میں نے بھی اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے اتفاق سے میں دونوں دن اس بار میں تھا جب وہ عورت اس سکے اس نوجوان تابہ ساد سے لے کر چلی گئی تو عابد الجرد بن کشف فرماتے ہیں کہ میں اس لڑکے کے پاس گیا اور اس سے کہا بیٹا لگتا ہے آپ کو کلامید نہیں آٹا بلد میں کم و بیش سبھی تانے والے اس دینی کو تولتے تھے اور دو سکوں سے

زیادہ کسی نے اس کی قیمت نہیں لگائی لیکن تم نے اس سکوں میں اسے خریدادہ لڑکا نہایت ادب سے بولا میں نے برتن نہیں خریدا میں نے اس کی بچی کا نسخہ خریدنے کے لئے اور ایک مہینے تک اس کی بیٹی کی دیکھ بھل کے لیے پیسے دیے ہیں میں نے اس لیے یہ قیمت دی ہے کہ گھر کا باقی سلک بیچنے کی نوبت نہ آۓ علید کہتا ہے میں سوچ میں پڑ گیا ۔ اس طرح اس عورت نے انسانوں میں چھے حوس پرستوں کو دیکھ لیا تھ ساتھ ہی اس اللہ کے نیک بندے کو بھی جس نے اسکی مدد کی ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *