میری عمر اکیس سال ہے اور میں ایک دکان میں بطور – گرل کام کرتی ہوں ، ویسے اسے دکان تو نہیں کہنا چاہیے یہ عورتوں کے کپڑوں کا ایک بہت بڑا سٹور ہے جہاں ہر وقت رش لگا رہتا ہے ۔ خاص طور پر آج کل عید کے دن ہیں تو عورتیں یوں کپڑے خریدتی ہیں جیسے مفت مل رہے ہوں مگر ہمیشہ ایسا نہیں ہوتا ۔ کبھی کبھی ان عورتوں کو کچھ
پسند نہیں آتا بس گھوم پھر کر چلی جاتی ہیں ۔ کل ایسی ہی ایک آنٹی آئیں اور گھنٹہ بھر مجھ سے کپڑے نکلوا نکلوا کر دیکھتی رہیں ، آخر میں ناک سکوڑ کر مجھ پر یوں غصہ نکالنے لگیں جیسے میرا کوئی قصور ہو ، مجھ سے پوچھنے لگیں تمہاری عمر کیا ہے ۔ میں نے بتائی تو کہنے لگیں دیکھنے میں تو تم اٹھارہ کی بھی نہیں لگتی ، کچھ کھاتی پیتی نہیں ، میں مسکرا کر چپ ہو گئی ۔
انہیں کیا بتاتی کہ میں پروٹین سے بھرپور غیر ملکی سیریل کا نہیں بلکہ چاۓ میں ڈبل روٹی ڈبو کر ناشتہ کرتی ہوں اور اس کو پنچ سمجھ کر دوپہر میں کچھ نہیں کھاتی ۔ شام تک میرے چار چھوٹے بھائی بہن اگر گھر میں کوئی سالن بچا دیں تو روٹی کے ساتھ کھا لیتی ہوں ، دو مکھن ، گوشت ، مچل ، میوے اور ہر قسم کی قوت بخش غذا ہمارے غربت کے مذہب میں حرام ہے ۔ ،
اس اسٹور میں کام کرتے ہوۓ مجھے تقریباً چھ ماہ ہوگئے ہیں ، پندرہ ہزار تنخواہ ہے ، جو کچھ کرنا ہے انہی پیوں میں کرنا ہے ، کمپنی صرف دو یونیفارم بنا کر دیتی ہے جو ا سکارف سمیت ڈیوٹی پر پہننا لازم ہے ، باقی آنا جانا ، کھانا پینا سب تنخواہ میں سے خود کرنا ہے ۔ اسٹور میں ایک لڑکا بھی کام کرتا ہے جو موٹر سائیکل پر آتا جاتا ہے ، نوکری کے چند ہفتوں بعد مجھے پتا چلا کہ وہ اسی
علاقے میں رہتا ہے جہاں میرا گھر ہے ۔ پھر ایک دن خود اس نے کہا کہ میں تمہیں واپسی پر گھر چھوڑ آیا کروں گا ۔ شروع میں تو میں بہت گھبرائی ، لوگ کیا کہیں گے ۔ پھر سوچا کہ اگر میری پندرہ ہزار تنخواہ میں سے دو ہزار آنے جانے میں لگ گئے تو پھر لوگ کیا کہیں گے ، مینے کے آخری دنوں میں اگر میرے بھائی بہن بھوکے سوگئے تو
پھر لوگ کیا کہیں گے ۔ جواب آیا کہ پھر لوگ کچھ نہیں کہیں گے ، یہی سوچ کر میں نے اس لڑکے کے ساتھ اسٹور آنا جانا شروع کر دیا ۔ میں اسے بھائی کہتی ہوں اور دل سے بھائی مانتی ہوں مگر اس کے باوجود میری ماں کی تسلی نہیں ہوئی ۔