بہت سارے مہینوں کی تیاریوں کے بعد بالآخر آج وہ دن آن پہنچا تھا آج میری شادی تھی میں دلہن بنی بیٹھی تھی کہ اچانک شور اٹھ گیا کہ برات آگی بارات آگئی ، ساتھ ہی پٹاخوں فائرنگ کی آوازیں آنے دھڑکنے لگا اب میں ماں باپ کے گھر سے صرف چند گھڑیوں کی مہمان تھی اس کے بعد مجھے باقی کی ساری زندگی ایک انجام شخص کے ساتھ گزارنی تھی جس سے آج میری شادی تھی یہ سوچ کے ہی میری آنکھوں میں آنسو آ کے میر ادل سوکھے پتے اور ہوا میرا دل زور زور سے
کی مانند لرزنے لگا تھا تھوڑی دیر ہی گزری تھی کہ باہر سے غیر معمولی قسم کا شور آنے لگا جس میں مردوں کے تیز بولنے کی آواز میں اور کچھ عورتوں کے رونے کی آواز میں بھی شامل تھیں ساتھ ساتھ ایسی آواز میں بھی آرہی تھیں جیسے کوئی کہہ رہا ہوں کہ اس کو ہسپتال لے جاؤ اچانک سے آواز آئی کہ پولیس کو کال کرو میرا دل ڈر کے رہ گیا تھا کہ پتہ نہیں اچانک ایسا کیا ہو گیا تھا جو ایسی آواز میں آنے لگی تھی میں اکیلی کمرے میں بیٹھی بے چین ہو رہی تھی کہ آخر مجھے بھی پتہ چلے کہ ہوا کیا ہے اس دوران
میری چھوٹی بہن ثمینہ بھاگتی ہوئی کمرے میں آئی اور کہنے لگی کہ آپی باہر بہت بڑا مسئلہ بن گیا ہے اور میں نے لرزتی ہوئی آواز میں پوچھا کہ کیا ہوا ؟ تو اس نے بتایا کہ دولہے کے بھائی نے ہوائی فائر چلا یا جو ایک محلے کے لڑکے کو لگ گیا ہے ۔۔۔
اس کی حالت بڑی خراب ہے اور اس کو ہسپتال لے گئے ہیں ۔ یہ سنتے ہی میرے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہونے لگے اور پریشانی سے میری آنکھوں سے آنسو نکل آۓ یہ اچانک کیا ہو گیا تھا کس کی نظر لگ گئی تھی ہماری خوشیوں کو اس وقت پولیس کے سائرن کی آوازیں آنے لگیں اور تھوڑی ہی دیر بعد پولیس میرے ہونے والے شوہر اور اس کے بھائی کو گر فتار کر کے تھانے لے کی جس گھر میں ابھی خوشیاں تھیں اور شہنائی بج رہے تھے وہاں ایک دم سوگ کا ساں بن گیا کافی وقت گزرنے کے بعد میرے
ابو اور میرے تایا ابو کمرے میں آۓ اور مجھے کہنے لگے بیٹی آج اگر تمہاری رخصتی نہ ہوئی تو ہماری عزت خاک میں مل جاۓ گی اور وہ کسی صورت بھی دلہے کو رہا کرنے پر راضی نہیں ہے بس اب ہمارے پاس ایک ہی حل ہے کہ تم خود ہمارے ساتھ تھانے جاؤ اور اپنے دلہے کی ضمانت کے لئے تھانیدار سے بات کرو ہو سکتا ہے وہ تمہارا سرخ جوڑا دیکھ کر کچھ لحاظ کر دیں اور لہے کو رہا کر دیں میں چار و ناچار اس وقت اور اس جوڑے میں
اپنے باپ کے ساتھ تھانے روانہ ہو گی میرے باپ باہر رکا اور میں اکیلی اندر چلی گئی کچھ دیر انتظار کے بعد مجھے تھانے دار کے کمرے میں بھیج دیا گیا وہ ایک بیت ناک شکل والا انسان تھامیز پر ٹانگیں رکھے سگریٹ پی رہا تھا بڑی بڑی مونچھیں اس کے چہرے کو مزید خوفناک بنارہے تھے
میری بات سن کر کافی دیر مجھے کو دیکھتارہا اور پھر کہنے لگا اچھا تو سہاگ رات منانے کی بہت جلدی ہے تم کو اس کی بات سن کر میں شرم سے پانی پانی ہو گئی لیکن خاموش رہیں وہ چالاک انسان ہماری مجبوری سمجھ چکا تھا اور اس سے فائدہ اٹھانا چاہتا تھا مجھے کہنے لگا کہ لڑکی زمانت تو بہت مشکل ہے کیونکہ جس کو گولی لگی ، ، ہے اس کی حالت خطرے میں ہے میں نے ایک لمبا سانس لیا اور پریشانی سے انگلیاں چٹھانے لگی انسپیکٹر کھڑا ہوا اور میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر ھمگیں لیجے میں بولا کہ ایک شرط یہ
تمہارے دولہے کو رہا کرو گا اگر تمہیں آج ہی اپنے دلہے کا حق چاہیے تو اس سے پہلے تمہیں میری دلہن بنا پڑے گا میں اس کی بات سمجھ گئی اور مزید پریشان ہو گی مجھے کسی صورت بھی اس کی گندی آفر قبول نہیں تھی میں چپ چاپ تھانے سے باہر نکل آئیں سامنے دیکھا تو میرا باپ منہ چھپا کر کھڑا تھا مجھ سے اس کی بے بسی دیکھی نہ گئی کہ آج وہ میری وجہ سے کتنا مجبور تھا ا میں الٹے قدموں تھانے دار کے پاس واپس آگئی اور اس سے
کہا کہ پہلے مجھے اپنے ہونے والے شوہر سے ملنے دو اس کے بعد کوئی فیصلہ کروں گی اس نے اپنے سپاہی کو آواز دی اور اس کے ساتھ مجھے بھیج دیا جہاں میرا ہونے والا شوہر موجود تھاوہ شیر وانی پنے گلے میں مالا ڈالے پریشان سا بہت پیارا لگ رہا تھا مجھے دیکھتے ہی وہ میری طرف لپکا اور میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی بول اٹھا
کے مجھے معلوم تھا کہ میری ہونے والی دلین ضرور ہمیں بچانے آۓ گی میں خاموشی سے اس کی طرف دیکھتی رہی اور سوچتی رہی کہ قدرت نے ہماری پہلی ملاقات کا انتظار کہاں کر رکھا تھا ایسا تو میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا میں نے اس کو صاف صاف بتا دیا کہ تھانے دار آپ کی رہائی کے لئے میرے ساتھ بد کاری کرنا چاہتا ہے وہ چاہتا ہے کہ میں آپ ا سے پہلے کچھ دیر کے لئے اس کی بیوی بنوں ورنہ اگر وہ لڑکا
مر گیا تو تم دونوں بھائی ہمیشہ کے لیے جیل میں رہو گے میری بات سن کر میرا ہونے والا شوہر سوچ میں پڑ گیا میں سوچ رہی تھی کہ وہ میری بات سن کر بڑ بڑا اٹھے گا کہ اسکی جرات بھی کیسے ہوئی ایسی بات کہنے کی لیکن مجھے اپنے کانوں پر یقین ہی نہیں آیا جب اس نے التجایا انداز میں کہا کہ اسکی خواہش پوری کر دو جیسے تیسے کر کے ہم ساری عمر اس جیل میں رہنا نہیں چاہتے تم میری ہونے والی بیوی ہو میری خاطر قربانی دے دونہ
آخر کو آگے چل کر بھی ہمیں ایک دوسرے کا سہارا بننا ہے بس میں نے اس لمحے اپنے بارے میں فیصلہ کر لیا تھا میں ست قدموں سے چلتی ہوئی ۔ تھانے سے باہر نکل آئیں مجھے دیکھ کر میرا باپ تیزی سے میری طرف آیا اور میرا ہاتھ پکڑ کر پوچھنے لگا کہ بتاؤ بیٹی کیا ہوا ہو گیا کام ان کو ضمانت تو مل جاۓ گی نا
میں نے کہا ابو آپ نے مجھے آج ہی دلہن بناتا ہے نا وہ سر ہلا کر کہنے لگے کہ ہاں کیوں نہیں بیٹی میں نے اپنے ابو کا ہاتھ تھام لیا اور کہنے لگی کہ ٹھیک ہے پھر گھر چلیں میرے ابو نے حیران ہو کر میری طرف دیکھا اور فکر مندی سے کہنے لگے کہ دولہا تو ابھی تھانے میں ہے بیٹی نہیں عبد الحق تو گھر پر ہے میں نے اطمینان سے جواب دیا ابو نے پھر حیران ہو کر پوچھا کہ بیٹی وہ کون ہے میں نے مسکرا کر کہا
کہ آپ کا بھتیجا ہے نا تایا ابو کا بیٹا علی ۔۔ حیرت اور خوشی سے میرے باپ کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا ان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے انہوں نے پیار سے مجھے گلے لگا لیا کچھ عرصہ پہلے تک میرے تایا ابو اپنے بڑے بیٹے علی کارشتہ میرے لیے مانگتے رہے تھے اور میرے ابو کی بھی یہی مرضی تھی اور علی بھی اس رشتے سے بہت خوش تھا لیکن میں نے صرف اس وجہ سے اس رشتے سے صاف انکار کر ڈالا تھا
کیونکہ علی زیادہ پڑھا لکھا نہیں تھا اور اپنے باپ کا خاندان ، کاروبار سنجالتا تھا کیونکہ میں خود زیادہ پڑھی لکھی تھی اس لیے مجھے شوہر بھی زیادہ پڑھا لکھا چاہیے تھا لیکن آج عین وقت پر قدرت نے مجھے غلط ہاتھوں میں جانے سے بچالیا تھا ایک ایسا انسان جو اپنی اور اپنے بھائی کی جان چھڑانے کے لئے اپنی دلہن کی عزت قربان کرنے پر تیار ہو گیا تھا
پتہ نہیں وہ کل مستقبل میں میرے ساتھ کیا کیا سلوک کر تا میں تو یہ سوچ کر ہی ڈر گئی تھی اس دن میں اپنے کزن علی کی دلہن بن کر ان کے گھر چلی گئی جو کہ ہمارے گھر . سے ایک دیوار کے فاصلے پر تھا میں نے ٹھیک فیصلہ کیا یا ني لمنٹس کر کے بتاۓ گا ضرور