مجھے چھوڑ دو تمہیں خدا کا واسطہ زارا روتی ہوئی مسلسل گڑ گڑاتے ہوئی

مجھے چھوڑ دو تمہیں خدا کا واسطہ ہے ، زارا روتی ہوئی ، مسلسل گڑ گڑاتے ہوئی التجا کر رہی تھی مگر وہ اپنی ساری انسانیت بھلائے ہوئے ، اپنی ہوس مٹانے میں مگن تھا باہر سے آتی تیز میوزک کی آواز زارا کی چیخوں اور آہ و پکار کو دیا رہی تھی ۔ مسلسل مزاحمت کرتی زارا کبھی اس کا منہ تو کبھی بال نوچتی ، مگر اس وقت اس شخص پر شیطان غالب تھا ۔ وہ اپنی ہوس مٹا کر زارا کے

سکتے تڑپتے وجود سے ہٹا تو زارا نے پاس پڑے مٹی میں اپنے دوپٹے سے اپنا نیم برہنہ وجود ڈھانپنے لگی ۔ میری عزت کو پامال کر کے تم کیا سمجھتے ہو ، میں بدنامی کے ڈر سے چپ ہو کر بیٹھ جاؤ گی ابھی باہر جا کر پوری یونیورسٹی کے سامنے تمہاری اصلیت سب کو بتاؤں گی ، تھوڑی دیر بعد زارا اپنے آنسو صاف کر کے دوپٹہ اپنے گرد لپیٹتے ہوئے باہر جانے لگی ،

رکو زارا یہ سب کچھ مجھ سے انجانے میں ہوا ہے پلیز میرے ساتھ ایسا مت کرو ، میں شرمندہ ہوں ، وہ زارا کا راستہ روکتے ہوئے کہنے لگا اب اس کے چہرے پر واقعی شرمندگی کے آثار نمایاں تھے ۔ تمہارے شرمندہ ہونے سے میری عزت واپس نہیں آسکتی لٹیرے ہو تم انسانی روپ میں بھیڑیے ۔ سب کو تمہارا گھناونا روپ دکھاؤں گی تاکہ میری طرح تم بھی اپنا منہ دکھانے کے قابل نہ رہو ،

زارا اس پر تھوکتی ہوئی حقارت بھری نظر ڈال کر دروازے کے پاس پہنچی تھی اس نے زارا کو روکنے کے لیے دونوں بازوں سے پکڑا زارا پلیز ایک دفعہ میری بات سن لو ، میں ۔۔ میں بہک گیا تھا ۔ میں اپنی غلطی کا مداعوا تم سے شادی کی صورت کرنے کے لیے تیار ہوں مگر پلیز کسی کو کچھ مت بتانا ، اس نے زارا کو روکتے ہوئے کہا اس وقت ان

لوگوں کی الوداعی پارٹی تھی باہر سارے اسٹوڈنٹس اور نجرز موجود تھے ۔ غلطی ۔ ! تم اسے غلطی کہتے ہو ، گناہ کیا ہے تم نے ۔ گناہ گار ہو تم ۔ تم جیسے گھٹیا نفس کے غلام سے شادی کرنے سے بہتر ہے میں خودکشی کر لوں ، وہ جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑاتی ہوئی کلاس روم کے ، دروازے کھولنے لگی تھی اس نے دوبارہ زارا کا ہاتھ پکڑ کر اسے پیچھے دھکا دیا ۔ ۱۸ فوری طور پر اپنا توازن

بر قرار نہ رکھ پائی اور پیچھے پڑی ہوئی شیشے کی میز پر جاگری ۔ یوں پیچھے میز پر گرنے سے زارا کے سر کے پچھلے حصے سے خون نکلنے لگا ۔ زارا یہ ، یہ کیا ہو گیا ۔ ایم سوری میں ایسا نہیں چاہتا تھا ۔ وہ نارا کے پاس پہنچ کر اسے دیکھتا ہوا کہنے کا ایک غلطی کے بعد دوسری غلطی وہ اپنا سر پکڑ کر بیٹھ گیا ۔ اتنے میں اسے محسوس ہوا جیسے کلاس روم کی طرف کوئی آرہا ہے وہ بنا سوچے سمجھے کلاس کے دوسرے

دروازے سے باہر نکل گیا ۔ اس واقعے کو گزرے ہوئے چھ سال ہو چکے تھے مگر آج بھی جب اسے یہ واقعہ یاد آتا تھا تو نئے سرے سے وہ اپنے آپ کو ندامت میں گھرا ہوا محسوس کرتا تھا ۔ عام دنوں میں تو وہ اپنے ضمیر کی آواز کو دبا دیتا تھا مگر خاص اس دن جس دن اس کے ہاتھوں زارا کی عزت اور ہان گئی تھی ، اس کا ضمیر اس پر کوڑے برساتا اور چیخ چیخ کر اسے گناہگار کہتا تھا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *