جس لڑکے سے ناجائز تعلقات کا الزام لگایا گیا تھا اس لڑکے نے بھی

اقرا حسنین جنگ سے رخصت ہو کر ہمارے گاؤں آئی تھی اس کی شادی اس کے لگے پھو زاد سے ہوئی تھی مگر شادی کے چار ماہ بعد ہی حالات بدل گئے اور اس پر تشدد شروع کر دیا گیا کبھی اس کو پیٹا جاتا کہ روٹی اچھی نہیں بھی کبھی کہا جاتا صفائی اچھی نہیں ہوئی کبھی کوئی بہانہ منہ کے سامنے رکھا

جاتا اور کبھی کوئی اور بدلے میں اسے اس کا شوہر ، دیور ساس اور نندیں سب پیٹتے جب پورے گاؤں والوں نے اس کے سسرال کو لعن طعن شروع کر دی تو انہوں نے اقرا پر تشدد کرنا پھر بھی نہ تھوڑا البتہ الزام بدل دیا اب کی بار اس پر چوری کا الزام لگایا جانے لگا یہاں تک ایک بار اس کے

دیور نے اسے مارا اور گھر سے نکال دیا وہ اپنے میکے واپس جانے کے لئے سٹرک پر کھڑی ہو کر سواری کا انتظار کر رہی تھی کہ پیچو سے اس کا شوہر پہنچا اور اسے مٹرک سے پیلتے ہوئے گھر لانے لگا جب مارتے مارتے گاؤں میں داخل ہوا تو لوگوں نے روک کر بیوی پر تشدد کرنے کی وجہ پوچھی

وجہ پوچھنے پر اقرا کا شوہر پہلے تو بو کھلا گیا مگر فوراً ہی تاثرات کو چھپایا اور الزام لگا دیا کہ وہ سونا چوری اٹھا کر بازار بیچ رہی تھی کہ میں نے رکے ہاتھوں پکڑ لیا پوچھنے والا شخص جواب سن کر خاموش ہو گیا کیونکہ وہ نہ تو موقع پر بات بڑھانا چاہتا تھا اور نہ مزید لڑائی مگر اس رات چند بزرگوں نے بیٹھ کر فیصلہ کیا اور اقرا

کے میکے والوں کو اس کے حالات سے آگاہ کر دیا اس کا اکلوتا بھائی اپنے والد کے ہمراہ اپنی بہن کو لینے آیا مگر پھر اپنی بہن کی چکنی چپڑی باتوں میں آ کر اقرا کا والد اپنی بیٹی وہیں اپنی بہن کے بھروسے چھوڑ گیا ایک ڈیڑھ ماہ تو اقرا کا سکون سے گزر گیا مگر پھر پرانی روٹین شروع ہو گئی اور اب کی بار اقرا پر

بد کردار ہونے کا تھا اقرا پر جس لڑکے سے ناجائز تعلقات کا الزام لگایا گیا تھا اس لڑکے نے بھی مسجد میں بیٹھ کر قرآن پر ہاتھ رکھ کر قسم دی تھی جب کہ دوسری طرف اقرا نے بھی باوضو ہو کر قرآن پاک پر ہاتھ رکھ کر الزام جھوٹا ہونے اور اپنے با کردار ہونے کی قسم دی تھی لوگوں کے سامنے

اس کی قسم کو مان لیا گیا مگر اس کو اس ناکردہ گناہ کی سزا دی جاتی رہی یہاں تک کہ اقرا کے لگے بھائی کو بھی اس سے ملنے سے منع کر دیا گیا لصورت دیگر طلاق دینے کی دھمکی دے دی گئی اس بیچاری نے اپنے سگے بھائی کو بھی گھر آنے سے منع کر دیا دوسری طرف اس کا شوہر خدا کی پکڑ میں آیا اور

بستر کا ہو کر رہ گیا وہ کسی عجیب و غریب بیماری میں مبتلاء ہوا اور انتہائی لاغر ہو گیا اور شامت اب کی بار بھی اقرا کی آ گئی تھی اقرا پر شوہر کو تعویذ ڈالنے کے الزام تھے وہ قسم اٹھاتی رہی قرآن پر ہاتھ رکھے مگر کسی نے اس کا یقین نہ کیا اس نے لاکھ بتایا کہ وہ شوہر کو تعویذ ڈال کر اس کی جان کیوں لے گی

وہ چار بچوں کی پرورش اکیلے کیسے کر سکتی ہے مگر یہاں سب خوف خدا سے عاری تھے اس پر یقین کس نے کرنا تھا اس کی قسموں وعدوں دلیلوں کو رد کرتے ہوئے مار مار کر مار دیا گیا میری والدہ بتاتی ہیں کہ جب وہ پہنچی تو انہوں نے جا کر اس کے جسم کو ڈھانپا جس سے روح پرواز کر چکی تھی اور جسم

نیم برہنہ حالت میں بیجان پڑا تھا آج اقرا کی زندگی کے ساتھ اس کی زندگی کی آزمائشوں کا بھی انتقام ہو گیا تھا مگر افوس کہ جیتے جی وہ کبھی خوشی نہیں دیکھ پائی تھی ہمیشہ ظلم و جبر کا شکار رہی تھی میری تمام قارئین کرام سے التجا ہے کہ آپ لوگوں نے اپنی بیویوں کے متعلق اللہ تعالی کو حساب دینا ہے اس بات کو یاد رکھنا.

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *