” میرے پاس اتنے ہی پیسے تھے جن سے میں ماں کی چند سانسیں خرید سکتا تھا یا بچوں کے لئے ایک مہینے کی روٹی اور میں نے بچوں کے لیے روٹی خرید لی تھی یہ کہہ کر وہ بزرگ روپڑے تھے اور میں نے بے اختیار انہیں سینے سے لگا لیا تھا آپ بھی سنئیے ان کی کہانی ان ہی کی زبانی ۔۔۔۔ میر انام ارشد انصاری ہے میرا تعلق پاکستان میں صوبہ پنجاب کے شہر مرید کے سے ہے میں گھر میں کپڑے کی مدد سے کھیں اور مخصوص قسم چادر بنا کر بیچا کرتا تھا میرے کپڑے کی کوالٹی بڑی بڑی ملوں میں لگی ہوئی مہنگی اور امپورٹڈ مشینوں پر بننے والے کپڑے جیسی نہ تھی مگر خدا گواہ ہے میں نے بچوں کارزق کمانے کے لیے بے ایمانی سے کام نہیں لیا تھا
میں نے آج تک ایک آدھ نلکی بچانے کے لئے کپڑے کی مقدار میں کمی بیشی نہیں کی تھی اگر کپڑے کی مقدار میں چند دھاگوں کا بھی فرق ہوتا تو میں نئی نلکی لگا کر اسے پورا کر دیا کرتا تھا میں پڑھا لکھا نہیں تھا مگر میں نے مولوی صاحب سے سن رکھا تھا کہ رزق حلال کمانے والا اللہ تعالی کا دوست ہے اور میں نے جہاں تک ممکن تھا اللہ تعالی سے دوستی بناۓ رکھی ۔۔۔۔۔ میں نے اپنے گھر اور بچوں کے لئے بڑی محنت کی مگر اس کے باوجود بھی اپنے باقی فرائض سے غافل نہیں ہوا جہاں تک ممکن تھا بچوں کی بہترین پرورش کی ان کی اچھی تربیت کی اسلامی تعلیمات اور طور طریقے سیکھاۓ میرے دونوں بیٹے ایسے شعبوں میں چلے گئے جہاں حرام مال سے شاید کوئی ولی اللہ ہی بیچ کر رہ سکتا تھا
افسوس کے میرے بچوں نے بھی ولی اللہ بن کر رہنے کی بجاۓ رشوت لے کر اللہ تعالی اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی لعنت کے مستحق ٹہرے میرا ایک بیٹا پٹواری بنا اور دوسرا پنجاب پولیس میں اے ایس آئی بچوں کے ملازمت پر لگنے کے بعد میں نے سب سے پہلے اپنی بیٹی کو نکاح کر کے گھر سے رخصت کیا اور بیٹی کے فرض سے سبکدوش ہونے کے بعد بیٹوں کے لئے مناسب تلاش کر کے انہیں بھی بیاہ دیا مگر شادی کے بعد میرے سگے بیٹوں نے میرے ساتھ بیگانوں جیسارویہ اپنالیا اور حرام طریقے سے مال کمانے میں ایک دوسرے سے آگے نکلتے گئے شروع شروع میں میں نے ان کو اپنی ناقص دینی معلومات کے مطابق حرام کی کمائی سے روکنے کی کوشش کی لیکن وہ بعض تو نہ آتے مگر چپ چاپ میری بات سن لیتے
پھر اپنی بیویوں کے کہنے پر انہوں نے پلٹ کر مجھے جواب دینا شروع کر دیا آخر کار ایک دن جب میں ان کو اپنے پاس بٹھا کر راوا راست پر چلنے اور حرام کی کمائی سے بچنے کی تلقین کر رہا تھا تو میرے چھوٹے بیٹے کی بیوی آئی اور انتہائی بدتمیزی سے مجھے مخاطب کرتے ہوۓ کہنے لگی اوۓ بڈھے اب تو کیا چاہتا ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسل کے لئے کچھ چھوڑ کر نہ جائیں ہماری آنے والی نسل بھی تیری طرح ساری زندگی نلکیوں سے کپڑے بنتی رہے ؟ میں جو اپنی بہو کی اس بیہودگی پر حیران رہ گیا اور منتظر تھا کہ میرے غیرت مند بیٹے اٹھ کر میری بہو کو ابھی جواب دیں گے
یہ بھی میری خام خیالی ثابت ہوئی اور میرے بڑے بیٹے نے میری چھوٹی بہو کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے کہاہم ساری زندگی تیری طرح نہیں گزار سکتے کہ صبح کا کھانامل جاۓ تو دو پہر کا نہ پتہ ہو ؟ دو پہر کامل جاۓ تو شام کا نہ پتہ ہو ؟ نہ ہی ہمیں تیری طرح اپنے بچوں کو ان سرکاری سکولوں میں تعلیم دلوانی ہے جہاں نہ کچھ پڑھایا جاتا ہے نہ سکھایا جاتا ہے ؟ اپنے بیٹے کے تیور دیکھ کر پہلی بار مجھے لگا کہ کاش اپنے بیٹے کا ایسا بدلہ ہوالہجہ دیکھنے سے پہلے میں مر گیا ہوتا مگر افسوس کہ میں زندہ تھا اور مجھے آخری سانس تک زندہ رہنا تھا ۔۔۔۔۔ اس دن کے بعد میرے بیٹوں اور بہوؤں نے بلا جھجک مجھے جھڑ کنا اور باتیں سناناشروع کر دیا میری حثیت گھر میں رکھے کئے ایک ملازم سے بھی کم تر ہو گئی شومئی قسمت کہ مجھ پر ایک اور امتحان آپڑا ؟ میری بیٹی کو طلاق ہو گئی وہ ایک بار پھر میری دہلیز پر آبیٹھی میرے بیٹی کا وجود میری بہوؤں کو گوارہ نہ ہوا انہوں نے میرے بیٹوں کے ذریعے مجھے مجبور کر ناشروع کر دیا
کہ میں اپنی بیٹی کا جلد از جلد دوبارہ کسی سے نکاح کر دوں میں نے بیٹوں کی بات مان لی مگر مناسب رشتہ ملنے تک کا وقت مانگ لیا میرے بیٹے آۓ دن اپنی بیویوں کے بتاۓ کئے رشتے مجھے دکھاتے جس میں کوئی شرابی چرسی ، زانی ، چور اچکا ہوتا میں انکار کر دیتا تو میرے بیٹے مجھے یعنی اپنے سگے باپ اور میری بیٹی یعنی اپنی سگی بہن کو گالیاں نکالنے لگتے میرے پاس بیٹوں کو برداشت کرنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا کیونکہ میں ان کا دیاہی کھارہا تھا مجھ میں خود اب محنت کرنے کی طاقت نہ تھی غیر جب میں نے بیٹیوں کے کہنے پر سات ماہ تک بیٹی کا نکاح نہ کیا تو میرے دونوں بیٹے ہم باپ بیٹی کو چھوڑ کر کراۓ کے گھر میں شفٹ ہو گئے اور ہمیں گھر یلو اخراجات کے لئے پیسے دینا تو دور کی بات زکوۃ اور صدقہ خیرات تک دینا بھی گوارہ نہ کیا ۔۔۔ ۔ میری بڑی بہو کے گھر بچے کی ولادت ہوئی تو انہیں ایک گھریلو ملازمہ کی ضرورت پڑی تب میرے بیٹوں کو فورا اپنی بہن کی یاد آئی اور جٹ پٹ گاڑی میں ہماری دہلیز پر آ پہنچے میری بیٹی نے مجھے چھوڑ کر بھائیوں کے ساتھ جانے سے انکار کر دیاتو میرے بیٹوں کو مجبوراً مجھے بھی ساتھ لے جانا پڑا خیر جیسے تیسے ہماری بہوؤں کو ہمارا وجود برداشت کرنا پڑا مگر میرے بیٹوں کی غیر موجودگی میں وہ مجھے اور میری بیٹی کو انتہائی غلیظ گالیوں سے نوازتی تھیں بلکہ جب میرے بیٹے شام کو گھر آتے تو کوئی نہ کوئی شکلیت لگا کر ان کے ہاتھوں بھی بے عزت کروانے کا موقع ہاتھ نہ جانے دیتیں ۔ ۔۔۔ تقدیر کو مجھ پر ترس آیا میں اپنی بیٹی کے ساتھ اپنے پوتے کے لئے پیمپر خریدنے نکلا اور واپسی پر روڈ کر اس کرتے ہوئے میری بیٹی جو میرا ہاتھ پکڑ کر مجھ سے دو قدم آگے چل رہی تھی ایک بڑی بس سے ٹکرا گئی میری بیٹی کے کو سر اور چھاتی میں شدید چوٹیں آئیں میں نے اپنے ناتواں بوڑھے ہاتھ سے آہنی بیٹی کا سر اپنی گود میں لیا دوپٹے کی مدد سے اپنی بیٹی کا جسم ڈھانپا تو میری بیٹی نے مجھے کلمہ شہادت پڑنے سے پہلے جو آخری الفاظ میرے کان میں کہے وہ کچھ یوں تھے اب میں بیچ بھی سکتی ہوئی تو کوشش کرنا میں نہ بچ پاؤں ابا یہ زندگی کسی عذاب سے کم نہیں میں جنت میں تمہارا انتظار کروں گی بھائیوں اور بھائیوں سے میری طرف سے ہاتھ جوڑ کر معافی مانگ لینا ان الفاظ کے بعد میری بیٹی نے کلمہ شہادت پڑا اور ساتھ ہی ریسکیو ایمبولینس کا سائرن سنائی دیا انہوں نے میری بیٹی کو اٹھا کر ایمبولینس میں ڈالا اور مجھے حوصلہ دینے کے بعد ذہنی طور پر ہر خبر کے لئے تیار رہنے کا کہا مگر میں پہلے ہی سمجھ چکا تھا کہ میری بیٹی مر چکی ہے اور ہسپتال پہنچتے ہی ڈاکٹر ز نے میری بات پر مہر ثبت کر دی تھی
میں نے اپنے بیٹوں کو پیغام بھیجا مگر میرے دونوں بیٹوں میں سے کوئی بھی لاش لینے اور میری مدد کرنے کے لئے نہ آیا میرے پاس سگی بیٹی کو کفن دینے کے بھی پیسے نہ تھے میں نے ہسپتال کے ڈاکٹروں کے ذریعے بیٹی کو لاوارث قرار دلوا کر دفن کروادیا ۔۔۔۔ بیٹی کی موت کے بعد میرا بیٹا جو پٹواری تھا اس نے مجھ سے ایک کاغذ پر انگوٹھالگوایا اور دھوکے سے گھر اپنے نام منتقل کروالیا چند دن بعد کچھ لوگوں نے آکر مجھے میری ذاتی گھر سے یہ کہتے ہوۓ نکال دیا کہ یہ گھر انہوں نے خرید لیا ہے میں نے پوچھا کس سے خریدا ہے تو انہوں نے میرے دونوں بیٹوں کا نام بتایا میں نے حیران ہو کر کہا میں ان کا باپ ہوں چلومیر اڈر یا احترام نہ سہی کچھ شرم حیا تو رکھتے مگر افسوس کہ میرے بیٹوں نے تو میر اشرم حیا بھی نہیں رکھا میری حالت سن کر میرے سامنے کھڑاہوامیرے گھر کا نیامالک تھوڑا افسر دہ ہوا اور ھمگیں لیجے میں بولا باباجی آج تولوگ خدا کا خوف اور شرم و حیا بھی دل سے نکالے بیٹھے ہیں تم اپنی اور ایک باپ کی بات کرتے ہو میں ان کی بات کا کوئی جواب نہ دے پایا چپ چاپ اپنا ایک بستر لپیٹا باقی سامان غریبوں کو دیا اور یہاں لاہور کی سڑکوں کو اپنا مسکن بنالیا آج یہ ہی میراگھر ہے میں یہاں کا ہی باسی ہوں ۔۔۔ پتہ نہیں مجھے کتنے عرصے بعد کسی نے گلے سے لگایا ہے میری خواہش ہے کہ کاش میرے دو کی بجاۓ ایک بیٹا ہوتا مگر تمہاری طرح در د دل رکھنے والا ہوتا انسان اور انسانیت سے لبریز ہوتا ۔۔۔۔ بابا جی نے بتایا کہ ایک بار جب میری ماں شدید بیمار تھی اور اسے وینٹی لیٹر پر ڈال دیا گیا ڈاکٹر ز نے بتایا کہ آپ کی ماں کچھ دن مزید زندر و سکتی ہے وینٹی لیٹر پر مگر اتنا خرچ آۓ گا ڈاکٹر ز نے جتنا خرچ بتایا اتنے خرچ سے میں اپنے بیوی بچوں کے لئے ڈیڑھ ماہ کا راشن خرید سکتا تھالہذا میں نے ماں کی موت قبول کر نی اور بچوں کی بھوک برداشت نہ کر سکا میں نے ماں کو وینٹی لیٹر سے ہٹانے کا کہہ دیایوں میری ماں جو میں چاہتا تو چند سانسیں مزید لے سکتی تھی مگر میں نے ماں کی سانسوں کی بجاۓ بچوں کی روٹی خرید کی اور آج ان ہی بچوں کی وجہ سے لاہور کی ان سڑکوں پر سوتا ہوں ۔۔ ۔