شازیہ انتہا کی خو بصورت لڑ کی تھی میں نے جب اسے پہلی بار دیکھا دیکھا تو اس پر اپنادل ہار بیٹھا جلد ہی میں نے اس رشتے کے لیے کو ششیں شروع کر دیںشازیہ کے ماں باپ نے زیادہ دیر نہیں لگائی اور ہاں کہہ دی مگرشازیہ کی پچھ شرطیں تھیں جو مجھے بعد میں معلوم ہوئیں پہلی شرط تو یہ تھی کہ شادی کس فنکشن صبح آٹھ بجے ہو گا باقی شرائط کے بارے میں میں بھی جاننا نہیں چاہتا تھا گو کہ اس نے یہ بات کہی تھی کہ شای سے پہلے ان باتوں کا جانناضر وری ہے مگر میں شازیہ کے عشق میں اس قدر پاگل تھا کہ میں نے کسی شرط کو خاطر میں نہیں لا یامیری شادی غیر مشروط تھی اور میں جانتا تھا کہ میں شازیہ سے شادی کر کے کبھی نہیں پچھتاؤں گا اپر یل کے
پہلے جمعے میری شادی شازیہ سے بخیر عافیت ہو گئی شازیہ کو پانے کا نشہ ہی الگ تھامیں نے آنے والے دنوں کا سوچ سوچ کر پچھولے نہ سمار ہا تھا شام کو مغرب سے پہلے ہی شازیہ رخصت ہو کر میرے گھر آگئی تھی تقر یا عصر کے وقت مجھے اس کے ساتھ خلوت نصیب ہوئی میں نے منہ دکھائی میں اسے قیمتی تحفہ دیا اس کا شکر یہ ادا کر ہی رہا تھا کہ وہ بولی پہلے میری شرائط سن لیں اگر آپ کو منظور ہے تو ٹھیک ہے اگر آپ کو نہیں منظور
تو ابھی اور اسی وقت مجھے طلاق دے دیجے شازیہ کے منہ سے پہلی ہی رات طلاق کا لفظ سن کر میرے دل کو کچھ ہونے لگاتم عورت ہو کر طلاق کی بات کیسے کر سکتی ہو میں نے دل میں سوچا تب شازیہ نے بات آگے بڑھائی میری شرط بہت آسان سی ہے وہ یہ که تم رات کو بھی میر اچہرہ نہیں دیکھو گے چاہے تمہارا جتنا بھی دل چاہے مگر میں تمہیں رات کو اپنا چہرہ نہیں دکھاؤں گی باقی تمہاری ہر بات مانوں گی تم جو کہو گے ویساہی ہو گالیکن ایک بات میری مانی جائے گی کہ رات کو تم کھی میر اچہرہ نہیں دیکھو گے نہ ہی میں رات کے وقت کسی سے ملوں گی اند ھیرا ہوتے ہی تقر یباعشاء کے وقت میں اپنے کمرے میں چلی جاؤں گی تم چاہو تو وہیں رہ
سکتے ہو اگر چاہو تو باہر گھوم پھر سکتے ہو میں یہ پابندی بھی نہیں کہ تم میرے ساتھ رہو شازی نے اپنی بات مکمل کی تو میں نے کہا ی شاز یہ یہ کیسی عجیب سے شرط ہے اگر تم مجھے اس کی وجہ بتادو گی تو میں تمہیں کبھی بھی رات کو اپنا چہرہ دکھانے پر مجبور نہیں کروں گالیکن شاز یہ بنا کسی وجہ کے میں تمہارا چاند سا می ب ی مکھڑ ارات کو کیوں نہیں دیکھ سکتا میں نے رومانوی انداز میں کہا مجھے لگا کہ یہ شازیہ کی نازو ادائیں ہیں مگر وہ تو سنجیدہ تھی بولی اگرتم نے رات کو میر اچہرہ دیکھاتو صبح تم سے طلاق لے لوں گی شازیہ کے سنجیدہ لہجے نے مجھے بھی سنجیدہ کر دیا میں نے میری بی غائب ہو گئی کہا ٹھیک ہے تم جیسی حسین لڑ کی ? کامل جاناہی غنیمت ہے تم کہوں گی تو تم رات کو کیادن کو بھی تمہارا چہرہ نہیں دیکھوں گاخیر یہ ایک جذ باتی قدم تھا اور مجھے شادی کے پہلے ہفتے میں ہی معلوم ہو گیا کہ اس کی قیمت چکانا کتنا مشکل ہے
مجھے جب بھی کہیں باہر جانا ہو تارات کو ڈنر کر نا ہو تا یا دوستوں نے مجھے کھانے پر بلایا ہو تاشازیہ میرے ساتھ موجو د نہ ہوتی رفتہ رفتہ یہ بات سب تک پھیلنے گی کہ شازین کی بیوی رات کو باہر نہیں نکلتی پچھ لو گوں نے تو اسے شازیہ کی شرافت سمجھاجب کہ کچھ نے عجیب و غریب قصے گھڑ لیے بہر حال اس صورت حال سے میں بہت تنگ تھا ا یک ہفتہ گزراتو شازیہ نے عجیب حرکت شروع کر دی اس نے ہمارے کمرے کا بلب خراب کر دیا
اتار کر باہر پھینک دیا میں نے کہاشاز یہ یہ کیا حرکت ہے بولی ایسا اس لیے کر رہی ہوں کہ کہیں رات کے وقت غلطی سے تم کہیں لائٹ نہ آن کر بیٹھو اور میر اچہرہ نہ دیکھ لو شازیہ کی بات سن کر میرا تجس بڑھتا جار ہا تھا کہ آخر اس کے چہرے میں ایسا کیا ہے جو میں رات کے وقت نہیں دیکھ سکتا بہر حال ہم دونوں کے در میان جو معاہدہ ہو اتھا میں اس پر قائم تھا اس رات میں نے دیکھا شازیہ بہت بے چین تھی وہ بار بار اندر باہر جاتی اور کبھی اپنےمنہ پر ہاتھ رکھ کر دعائیں کرتی میں سمجھ نہیں پار ہا تھا کہ اس کی بے چینی کا سبب کیا ہے اس وقت میں نے اسے کچھ نہیں کہالیکن میں جان گیا تھا کہ شازیہ کی بے تابی کی کوئی توجہ ہے کہ ہر وقت کسی کا انتطار کرتی رہتی ہے اس کی نگاہیں فون پر لگی رہتیں اور جیسے ہی فون آتاوہ ملکی آواز میں بات کرنے لگتی ہم دونوں کے بچ شک جیسی کوئی بات نہیں تھی اس لیے میں نے کبھی اس کا فون سننے کی کوشش نہیں کی مگر ایک دن شازیہ کے بات
کرنے کے بعد اس کے رویے سے اندازہ ہوا کہ وہ کسی اور کو فون کرتی ہے مطلب یہ کہ یہ اس کے میکے کافون نہیں ہو تا تھا بلکہ وہ کسی اور شخص سے بات کرتی تھی شازیہ نے آخری بات جب فون پر بات کی تو میں نے ایک مر دانہ آواز سنی تھی جس سے اندازہ ہو رہا تھا کہ شاز یہ کسی غیر شخص سے بات کرتی ہے اب تو جیسے میری زند گی کا سکون لٹ گیا بیوی خو بصورت تو تھی مگر خوب سیرت نہ تھی میں نے سوچا کہ ابشازیہ سے بات کرنے کی بجاۓ اپنے تہہ معاملے تک پہنچنے کی کوشش کروں گا اور جلد ہی شازیہ کا چہرہ بھی رات کے وقت دیکھوں گا تا کہ مجھے سمجھ آۓ کہ معمہ کیا ہے ایک دن میں ذرا آس سے جلدی آگیا اس دن شاز یہ پھر ٹہل رہی تھی اس کی بے چینی اس کے چہرے سے دیکھی جاسکتی تھی مجھے اندر آتا دیکھ کر حیرت سے بولی آپ اس وقت آپ تورات کو آٹھ بجے آتے ہیں آج جلدی کیوں آگئے اس کی حیرانی دیکھ کر مجھے اور غصہ
آیا کیوں تم میرے جانے کے بعد ایسا کیا کرتی ہو کہ میرے آنے سے تمہیں اس قدر حیرانگی ہو رہی ہے میں نے غصے سے پوچھا نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں شاز میہ نے بات سنجالتے ہوۓ کہا عین اسی وقت دروازے پر بیل بجی میں نے مشکوک نظروں سے شازی کی طرف دیکھاشازی کا رنگ جیسے نیلا پڑ گیا میں نے دروازہ کھولا تو سامنے ایک آدمی کھڑا تھاجو پولیس کی وردی میں مبلوس تھا اس وقت میرے سامنے کوئیاور ہو تا تو شاید میں شک کر تا مگر انسپکٹر مظہر حیات کو اپنے سامنے دیکھ کر میرا ساراغصہ جھاگ کی طرح بیٹھ گیا انسپکٹر مظہر حیات میر ادوست تھاہم دونوں ایک دوسرے کو کافی عرصے سے جانتے تھے اور میری اس سے بات چیت بھی ہوتی تھی مگر کافی عرصے سے ملاقات نہیں ہوئی تھی یوں کہیے کہ دو سال سے ہم دونوں نہیں ملے تھے میں جانتا تو تھا کہ وہ ہمارے ہی علاقے میں انسپکٹر تعینات ہے مگر مصروفیت کی وجہ سے دونوں کی ملاقات نہیں ہو پائی تھی یوں اچانک مظہر کو اپنے سامنے دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی مگر اس نے زیادہ حیرت کا اظہار نہیں کیا فوراہی میرے گلے لگ گیا اور بولا کہاں تھے تم یار اتنے عرصے سے ملاقات نہیں ہوئی
مظہر کا اند از تو بالکل نارمل تھا میں اسے اندر ڈرائنگ روم میں لے آیا مگر حیران تھا کہ مظہر کو میں اپنے گھر کبھی نہیں لا یا پھر اسے انہیں کیسے پتہ کہ میں یہاں رہتا ہوں باتوں باتوں میں میں نے مظہر سے دریافت کرنے کی کوشش کی بولا یار یہ بھی کوئی بات ہے ہم پولیس والوں کا اپنے علاقے کے ہر ہر بندے کا پتہ ہو تا ہے تم تو پھر دوست ہو مظہر کی بات سن کر بھی میں مطمئن نہیں ہو اتھا کیو نکہ میں نے شازیہ کو مظہر کا منتظر یا یا تھا میں جانتا تھا کہجس انداز سے شازیہ ٹہل رہی تھی یقیناوہ کسی کا انتظار کر رہی تھی اتفاقیہ و و شخص مظہر وہ نکلا تو مظہر نے مجھ سے ملنے کا بہانہ کر لیا اب بات میری سمجھ میں کچھ کچھ آگئی تھی مگر میں جاننا چاہتا تھا کہ آخر مظہر اور شازیہ کے بیچ چل کیار ہا ہے اس لیے میں نے شازیہ پر مزید شک کر ناچو ڑ دیامیرے دل میں جو بھی بات ہوتی میں اپنے دل میں ہی رکھتاشاز یہ پر کسی بھی قسم کے شک کا اظہار نہ کر تا ایک دن میں نے سوچا کہ اگر میری بیوی شازیہ مجھے
دھوکا دے رہی ہے تو میں بھی اس کے ساتھ وہ کروں گا جو اس نے سوچا بھی نہ ہو گا دل ہی دل میں میں دوسری شادی کی تیاریاں کر نے لگالیکن پہلے سوچا کہ ایک بار سب کچھ اپنی طرف سے ٹھیک کر لوں اس رات میں نے شازیہ کا چہرہ دیکھنا تھا میں جاننا چاہتا تھا کہ شازیہ رات کے وقت مجھ سے اپنا چہرہ کیوں چھپاتی ہے اس کے بعد مظہر حیات والی تھی بھی سلجھ جاتی لیکن پہلے اس کے چہرے کو بے ن نقاب کر ناضر وری تھارات کے وقت چونکہ کمرے کا بلب ت بند ہو تا تفاسو میں نے اپنے پاس ایک مچہوٹی سے ٹارچ رکھ لی شاز یہ میرے پاس آئی تو میں نے اس کا بازو تھاما تا کہ وہ عین وقت پر بھاگنے نہ پاۓ اور پھر اپنی جیب سے ٹارچ نکال کر روشنی اس کےچہرے کی طرف جیسے ہی کی تو میری چیخ نکلتے نکلتے پچی حیرت کے مارے مجھ سے بات نہ ہو رہی تھی شاز یہ تم نے مجھے اتنابڑ ادھو کہ دیا آخر مجھ سے اتنی بڑی بات تم نے کیوں چھپائی میں تو تم سے سچی محبت کر تا تھا تمہیں ایسا کرنے کی کیا ضرورت تھی میں نے نفرت سے شازیہ کی طرف دیکھا اس کے چہرے کے تاثرات یک دم ہی بدل گئے تھے میں آپ کو سب کچھ بتادوں گی خد ارا میری بات سن بیجئے آپ کو مجھ پر جو بھی شک ہے میں ووسب کے سب دور کر دوں گی آپ کو دوست مظہر حیات میں جانتی ہوں آپ کو جو شک ہے میں آپ کو سب بتاتی ہوں آپ بیٹھیں تو سہی شازیہ روتے روتے میرے
پاؤں پکڑ کر بیٹھ گئی وہ اس قد ر منت کر رہی تھی کہ میں چاہ کر بھی اسے دھتکار نہیں سکا بتاؤ شاز یہ کیا بات ہے کیوں تم نے ایسا کیا مظہر حیات سے تمہارا کیا تعلق ہے میں اب بڑے حمل سے اسے کہہ رہا تھا کیو نکہ میں نے سوچ لیا تھا کہ اگر یہ عورت مجھ سے دھو کہ کرے گی تو میں بھی دوسری شادی کر لوں گا اسے وہ د کھ دوں گا کہ ساری زندگی بھول نہیں پاۓ گی تب شازیہ نے جو بات سنائی اسے سن کر میر ادل بھی رنجیدہ ہو گیا آپ توجانتے ہیں ہماراگھر انہ کس قدر ماڈرن ہے میں نے بھی جب ہوش سنبال تو امی ابو کو اپنے سے دور ہی پایاوہ مجھے نوکروں اور نو کر انیوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر خود اپنے اپنے کاموں سے نکل جاتے میں جب امی سے کوئی بات کرتی تو وہ مجھے پیوں کی گڈی تھادیتیں یا پھر شاپنگ کروانے لے جاتیں مجھے تو مامتا کی ضرورت تھی میں ان کے پیار کی پیاسی تھی نگر ماں نے کبھی میری طرف مڑ کر بھی نہیں
دیکھا اس رویے نے میرے اندر بہت ساری محرومیاں پیدا کر دیں پہلے تو میں اپنے نو کر اور نوکرانیوں سے دوستی کرتی مگر پھر جب یہ احساس ہوا کہ وہ تو صرف میرے پیے کی اہمیت کو سمجھتے ہیں میرے جذبات کی قدر نہیں کرتے تو می نے نو کروں اور نو کر انیوں سے بات چیت کر نا بھی چھوڑ دی اب میری زند گی میں بھر پور خلا آ گیا تھامیری ماں نے مجھے کبھی بھی اپنے آفس آنے کی اجازت نہیں دی تھی ہمیشہ یہی کہتیں کہ میرےآفس آنے سے پہلے مجھے بتادینا کیونکہ میرے ہز ار کام ہوتے ہیں میں تم سے بات نہ کر پاؤں گی ابا بھی اپنے کاموں میں مصروف رہتے مگر اس وقت میر ادل بہت مجبور تھامیں اداس تھی سو جا گر امی کو فون کروں گی تو دیر ہو جاۓ گی میں نے گاڑی نکالی اور امی کے آفس چلی گئی مگر جیسے ہی آفس کے دروازے سے اند ر داخل ہوئی اندر کا منظر دیکھ کر میرا دل بجھ گیا میں اپنی ماں کے بارے میں ایسا سوچ بھی نہیں سکتی تھی مگر میری ماں اس
قدر روشن خیال ہویکی تھی کہ وہ اخلاقیات کو بھی بھول چکی تھی اس ایک لمحے نے میرے اند ربغاوت پیدا کر دی مجھے ان عورتوں سے سخت نفرت محسوس ہوئی جو لو گوں کو بھلائی کے درس دیتی ہیں اور خود ان کا کر دار کس قدر بھیانک ہو تا ہے یہ کوئی سوچ بھی نہیں سکتا اماں سے نفرت ہوئی تو میری شخصیت بھی بدل گئی میں نائٹ کلمبس میں جانے لگی ملبوسات ایسے پہنتی کہ ہر کوئی میری طرف متوجہ ہو جا تا اگر چہ میں اس سب میں خوشنہیں تھی مگر پھر بھی ناجانے کیوں میری روح کو ایک تسکین ملتی کہ میں نے اپنی ماں سے بدلہ لے لیا حالا کہ میں خود کو نقصان پہنچارہی تھی اب میں رات دیر تک گھر سے باہر رہتی اماں ابا کو کوئی خبر نہ تھی کہ ان کی بیٹی کیا کر رہی ہے میرے ملبوسات انتہائی بے بے ہو دہ ہوتے اور ناچنا گانامیر امحبوب مشغلہ بن چکا تھا ایک رات میں نے اس قدرے نوشی کی کہ میں مد ہوش ہو کر گریڑی عموما ہو
ایسے واقعات میں لڑکیاں اپنی عزت کھو بیٹھتی ہیں مگر میں اس معاملے میں خوش قسمت تھی صبح جب میری آنکھ کھلی دھڑکتے دل کے ساتھ اپنے پہلو میں دیکھا تو بستر پر کوئی بھی نہیں تھا میں ایک اکیلے کمرے میں لیٹی ہوئی تھی کمرے کی سجاوٹ سے انداز ہ ہو ر ہا تھا کہ یہ کسی مذ ہبی انسان کی رہائش گا د ہے اور پھر جب دولڑ کامیرے سامنے آیا تو واقعی میرا خیال بچ ثابت ہوا اس کے چہرے پر داڑھی سجی تھی جبکہ وہ ایک باشرع نو جوان لگ رہا تھامجھے دیکھ کر اس نے نظریں نیچی کر لیں کہنے لگا کل رات میں اپنی ایک مجبوری کی وجہ سے نائٹ کلب گیا تھاوہاں پر مجھے پچھ کام تھاوہاں میں نے آپ کو بے ہوش پایاتو آپ کا خیال کرتے ہوۓ اپنے گھر لے آیا امید ہے کہ آپ ٹھیک ہوں گی چلیے میں آپ کو آپ کے گھر چوڑ آ تاہوں نوجوان پر مجھے سخت غصہ آیا پھر اس کاحلیہ ایسا تھا کہ مجھے اس سے اور بھی نفرت محسوس ہونے لگی اس دن تو وہ مجھے گھر چھوڑ کر چلا گیا مجھے اس سے بالکل بھی کوئی
ہمدردی نہ تھی نہ ہی میں نے اس کا شکر یہ ادا کیاوجہ شاید کہ اس کا حلیہ تھا جس سے میری ماں نے ہمیشہ نفرت کی تھی اور ایسی ہی نفرت میرے بھی دل میں ان داڑھی والو کے لیے موجود تھی مگر اس شخص نے میر اپیچا نہیں چوڑاوہ بار بار میرے پیچھے آتا اور کہتا کہ میں تم سے محبت کر تا ہوں میری سہیلیوں نے جب یہ بات دیکھی تو وہ بولیں کہ تم اسے سے اپنی جان کیوں نہیں مچٹرالیتی یہ تو ہر وقت تمہارے بیچے آتا ہے تمہیں تنگ کر تاہے اگر ایساہی رہاتو باقی لڑ کے تم سے ڈرنا شروع ہو جائیں گے تم اس کا حلیہ تو دیکھو کتنا خطرناک لگتا ہے اپنی سہیلیوں کی بات سن کر میں نے اس لڑ کے کو سبق سکھانے کا سوچا لڑ کے کا نام سعود تھا ایک دن اس نے مجھ سے بات کرنے کی کوشش کی تو میں نے کہا کہ شام کو تم بہادری کا مظاہر ہ کر نا اور میری سہیلہوں کے سامنے خود کو ثابت کر ناتب ہو سکتا ہے کہ تمہار اکام بن جاۓ میری بات سن کر وہ بہت خوش ہو اگلی رات جب میں
نائٹ کلب سے نکل رہی تھی تو وہ مجھے میرے سامنے ہی دکھائی دیا عقیدت سے جھگی م نظر میں وہ میری محبت میں وہاں آیا تھامیں نے پولیس کو پیشگی اطلاع کر رکھی تھی کہ ایک شخص روزانہ مجھے حراس کر تا ہے میں نے اسی وقت کال ملائی اور پولیس دومنٹ کے فاصلے سے چل کر ہمارے ساتھ آگئی انہوں نے لڑ کے کو ہتھکڑیاں لگائیں اور پولیس موبائل میں بٹھا کر لے گئے میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ کھکھلا کر ہنسنے لگی مجھے اندازہ نہیں تھا کہیہ اس قدر بے وقوف نکلے گا بہر حال اس کو تھانے پہنچا کر میرے دل کو سکون پہنچا مگر پھر اگلے دن سہیلیوں کے بھڑ کانے پر کہ اس کی حالت معلوم کر لوں میں تھانے چلی گئی مگر تھانے پانچ کر جیسے میر اکلیجہ ہی کٹ گیا پولیس والوں نے مار مار کر اس کا بھر کس نکال دیا تھا وہ بہت اذیت میں لگ رہا تھا چہرے پر خون کے نشان تھے جبکہ تشد د کے باعث اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں اسے دیکھ کر مجھے سخت افسوس ہوا اس کی آنکھوں میں موٹے موٹے آنسو تھے مجھے دیکھ کر اس نے آسان کی طرف دیکھا اور بولا میں نے اپنا معاملہ اللہ پر چھوڑ دیاخد اگرے تمہاری را تیں بھی پر سکون نہ ہوں اس کی بد دعانے مجھے اندر تک و ہلا دیا مگر میں نے بظاہر کسی قسم کی پریشانی
کا اظہار نہیں کیا یہ تقر یا صبح کے سات بیج ریبا رہے تھے جب میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ اس سے ملنے گئی تھی ہم لو گوں کی عادت تھی ہم لوگ ساری ساری رات جاگتیں اور دن جا کے وقت سو تیں تھیں حالانکہ میرے ماں باپ معقول شخصیت کے مالک تھے بہر حال اس دن میں شام کو سو کر اٹھی تو مجھے اپنے چہرے پر ملن سے محسوس ہوئی مجھے لگا کہ شاید گرمی کی وجہ سے ایسا ہور ہا ہو گا مگر یہ جلن بڑھتی ہی گئی یہاں تک کہ رات آٹھ بجے جب میں نے شیشے میں اپنا چہرہ دیکھا تو اپنا دانوں سے بھر اسرخ چہرہ دیکھ کر میری چیخ نکل گئی مجھے اپنا آپ دیکھ کر رونا آرہا تھا صبح سے وقت تو میں سوئی ہوتی تھی سوچا کہ اسی وقت ہسپتال چلتی ہوں ڈاکٹر سے دوالے کرآؤ گی تا کہ یہ مصیبت جلد سے جلد میری جان ب چوڑ دے اس شام ڈاکٹر نے مجھے ایک دوادی جسے لگانے کے بعد مجھے پچھ آرام محسوس ہوا اور صبح ہت ہی میرے سارے دانے ختم ہوگئے میں نے خداکا شکر ادا کیا مگر اگلی رات پھر ویساہی ہو اشام کے وقت میرے چہرے پر ایسے دانے نکلے کہ مارے اذیت کے میرا بات کرنا مشکل ہو گیا میں نے ڈاکٹر سے جا کر اچھی خاصی بحث کی کہ اس نے مجھے غلط دوا دی ہے مگر پھر دو تین ڈاکٹر ز کو د کھانے
کے بعد مجھے یہ معلوم ہو گیا کہ میری یہ بیاری اتنی آسانی سے میری جان نہیں چھوڑے گی جتنا میں سمجھ رہی ہوں اس کے بعد میں نے کیا کیا نہیں کیا مگر یہ دانے ختم نہیں ہوۓ مجھے لگتا ہے کہ مجھے اسی لڑ کے کی بد دعالگ گئی ہے خدا جانے اب وہ کس حال میں ہو گا میں چاہتی ہوں کہ وہ مجھے ایک بار ملے اور میں اس سے معافی مانگ لوں شازیہ کی بات سن کر میں ہکا بکارہ گیاشاز یہ اس قدر تیز لڑ کی ہو گی میں تو کبھی سوچ بھی نہیں سکتا تھاشکل و صور ت سے وہ انتہائی معصوم تھتی تھی پھر اس کی ۔ عمر بھی کم تھی تقر یا ٹھار وانیس سال کی ہو گی اس وقت مجھے احساس ہوا کہ معصومیت کا تعلق عمر سے نہین ہو تا میں نے کئی عور تیں ای بھی دیکھیں جو چالیس کی عمر میں بھی اتنیہی سادہ ر ہتی ہیں جتنی کوئی اٹھارہ سالہ لڑ کی بھی نہیں ہوتی مگر اپنی بیوی کی زبانی اس کی کہانی سن کر میر ادل بجھ گیار ہی بات مظہر کی تو اس نے مجھے بتایا کہ وہ مظہر سے سعود کے بارے میں معلومات لیتی رہتی ہے مگر سعود کہاں گیا یہ کوئی نہیں جانتا مظہر کے یقین ولانے پر میں شازیہ کی بات مان تو گیا تھا مگر مجھے اس پر بڑ اشک ہو تا ہے میں اس پر پہلے کی طرح بھی اعتبار نہیں کر پایا اور رات کو میں اس کا چہرہ نہی دیکھ پاتا تو عجیب سے
ادھورا پن محسوس ہو تا ہے دل چاہتا ہے کہ دوسری شادی کروں مگر پھر شازیہ کی حالت دیکھ کر سوچتا ہوں کہ اس سب میں اس کا کیا قصور جو ہو اوہ تو سو ہو گیا مگر اب شاز بی نے و اپناطر ز زندگی بدل دیا ہے اب میرے خیال میں اسے اس کے ماضی کی سز ادیناغلط ہو گا آپ کو کیا لگتا ہے کیا میں سہی سوچ رہا ہوں یا مجھے کوئی اور فیصلہ لینا چاہیے