“بیوہ نورین رات کو جلد ہی بچوں کو سلا دیتی اور ایک مہمان کے لیے چارپا ئی پر بستر لگا”

جب سے مہینے میں دو تین بار حاجی صاحب گھر آنے لگے تھے نورین کے دن پھر گئے تھے حاجی صاحب خود تو آتے ہی تھے ساتھ میں گاڑی بھر کر سا ما ن بھی لاتے۔ راشن کے علاوہ پھل سبزیاں گوشت بیکری کی آٹمز نو رین نے آج اتنی چیزیں اکٹھی گھر میں نہیں دیکھیں تھیں نذیر کی تنخواہ ہی صرف آٹھ ہزار تھی مشکل سے قرض لے لے کر گزارہ ہو تا پھر تین بچوں کا ساتھ میکہ بھی کمزور تھا جب حاجی صاحب کی گاڑی چلاتے ہوئے نذیر ٹرالے کی ٹکر سے اللہ کو پیارا ہو گیا تو نورین کو یوں لگا کہ اس کے سر سے کسی نے آسمان چھین لیا ہو اور پاؤں کے نیچے سے دھرتی کھینچ لی ہو نذیر کی جیب سے تین سو وپے نکلے اور نو رین کے پاس تین روپے بھی نہیں تھے حاجی صاحب نے ک ف ن د ف ن کا انتطام کیا پوری برادری کو زردہ پلاؤ کھلا یا چند دن بعد جب میکا گیا اور ہر کو ئی خالی تسلی اور جھوٹا دلا سہ دے کر گھر کو لوٹ گیا تو اپنے واحد کمرے میں نو رین بچوں کو سینے سے لگا کر پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی آ نے والے سارے دن بہت مشکل تھے۔

بچوں کی فیسیں دینی تھی گھر بھی کرائے کا تھا نو رین کو سمجھ نہ آتی کہ وہ کیا کر ے چھوٹی سی بچی کی وجہ سے کوئی نوکری پر بھی نہ رکھتا سو چا کہ نو سال کے چا ند کو ہی کہیں لگوا دوں ایک دن کسی محلے والے کے ساتھ ورکشاب پر بھیجا۔ رات کو چاند سا بچہ کا لا کلو ٹا ہو کر گھر لوٹا تو ماں کا سینہ پھٹنے کو آ گیا نہلا دھلا کر کپڑے پہنائے ما تھا چو ما تو بیٹے نے جیب سے ایک سو بیس روپے نکال کر تھما ئے تو نورین کا کچھ دیر پہلے خود سے کیا ہوا قول ٹوٹ کر بکھر گیا کہ آئندہ چاند کو ورکشاپ گاڑیوں کے نیچے کھسنے نہیں بھیجوں گی۔ اسے سپر وائزر بنا دوں گا اسی فیکٹری میں پہلے سے خادم حسین کا بڑا بیٹا دلا ور بھی کام کرتا تھا چاند مرضی سے کام پر آتا جا تا اسے پیسے بھی زیادہ ملتے کھا نا بھی الگ سے اچھا دیا جا تا وہ حاجی صاحب کا منظور نظر تھا دلا ور چا ند سے بہت جلتا اور خار کھا تا پھر دوسرے لوگ بھی آ گ کو بھڑ کا تے کہتے تم بھی اس طرح ڈرائیور کے بیٹے ہو جس طرح چاند ہے مگر تمہیں کھانے میں ور کرز کے ساتھ دال سبزی ملتی ہے۔

اور وہ مرغا پھاڑتا ہے دلاور اور بھی چڑھ جاتا چاند کی سج دھج اور لباس کو دیکھ کر احساس کمتری کا شکار ہو جا تا اب تو حاجی صاحب نے چاند کو موٹر سائیکل بھی لے دی تھی دلاور کی چاند سے نفرت سے اور بھی چڑھ گئی تھی ایک دن کسی معمولی سے تکرار پر دلاور نے چاند کو سب ور کرز کے سامنے زور دار تھپڑ مار دیا بات مینجر سے حاجی صاحب تک پہنچی سب الزام دلاور کے سر دے رہے تھے حاجی صاحب نے مینجر کو کہا کہ دلاور کا حساب کر کے اسے فارغ کر دے منیجر نے جب دلا ور کی چھٹی کی تو وہ اس سے بھی الجھ پڑا۔ ان کے ہم پر بے پناہ احسانات ہیں جب تمہارے ابو کا انتقال ہو ا تم جانتے ہو صرف یہی ایک شخص ہمارے ساتھ کھڑا تھا نورین دلا ئل سے بیٹے کو سمجھا رہی تھی مگر جہاں بات محبت اور غیرت کی ہو وہاں سب دلا ئل سے بیٹے کو سمجھا رہی تھی۔

مگر جہاں بات محبت اور غیرت کی ہو وہاں سب دلائل ہار جا تے ہیں جب چاند ڈیوٹی پر ہوتا پھر بھی گھر آ کر چاند اس کھوج میں لگا رہتا ہے کہ کہیں اس کی غیر مو جودگی میں حاجی صاحب تو نہیں آتے تھے اسے اب اپنی دونوں بہنوں کی فکر رہنے لگی تھی اگر وہ بھی ماں کے نقش قدم پر چلنے لگیں تو کیا ہو گا وہ گھبرا اٹھا وہ چھپ کر س گ ر یٹ بھی پینے لگا تھا اندر کا ابال وہ دھو ئیں میں نکا لنا چاہتا تھا حاجی صاحب دن بدن بد لتی صورتحال سے دل گرفتہ تھے چاندان سے متنفر ہو چکا تھا ایک دو بار سا منے ہونے پر وہ ان کے پاس سے سینہ اکڑا کر ا جنبیوں کی طرح گزر گیا تھا لیکن اس مسئلے کا کوئی حل نہیں تھا گھر میں پھیلا تناؤ بڑھتا جا رہا تھا چاند روز گھر میں آکر شور مچانے لگا تھا۔

کبھی اماں کو کہتا کہ یہ شہر چھوڑ دیتے ہیں کبھی کہتا میں خو و ک ش ی کر لوں گا نورین بہت ر و ت ی اور سوچتی کہ اس نے کوئی گ ن ا ہ تو نہیں کیا وہ حاجی صاحب کی منکو حہ ہے ویسے بھی اگر ماں بری بھی ہو لیکن اولاد اسے برا کہے یا برا سمجھے اس کا سینہ پھٹ جا تا ہے حاجی صاحب نے چاند کا دبئی کا ویزا لگوا دیا تھا نورین کا بھی یہی خیال تھا کہ وہ اس ما حول سے نکل جا ئے گا تو سد ھر جا ئے گا مگر تقدیر میں کچھ اور ہی لکھا ہوا تھا جب ویزششے کے بارے میں نورین نے چاند کو بتا یا وہ بچھڑ کر آ گ بگو لا ہو گیا اور میڈیا کے ذریعے گھر گھر پہنچ چکی تھی لیکن حاجی صاحب کو اب اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا ن کی زندگی کا سب سے بڑا نقصان نورین کی جدائی کی صورت میں ہو چکا تھا

Sharing is caring!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *