آج میں آپ کو ایک معصوم لڑکی پر بیتی دکھ بھری ایک سچی کہانی بتانے جا رہی ہوں ۔ میں دروازے سے چھپ چھپ کر دیکھ رہی تھی اس کی حالت دیکھ کر میری چیخ نکلنے لگی جسے میں نے اپنے دونو ہاتھوں سے بامشکل رو کا بھائی کی نظر مجھ پر نہ پڑی بھائی کے کپڑے خون سے لت پت تھے اور ان کے ہاتھ میں جو ڈنڈا تھا وہ بھی خون سے بھرا ہوا تھا ۔
اس کی یہ حالت دیکھ کر مجھے اندازہ ہو گیا تھا کہ بھائی عمر کی زندگی کی ڈور کاٹ آئے میں میرا بھائی تو مجھ سے بے پناہ محبت کرتا تھا میرے لیے ہر وقت جان دینے کو تیار رہتا تھا مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ میرا بھائی میری ہی خوشیوں کا قاتل ہو سکتا ہے ۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے کی بات تھی جب میں اور عمر باغ میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے ہم دونوں ایک دوسرے سے بے پناہ محبت کرتے تھے ہمارا یوں چھپ کر ملنا معمول تھا لیکن نا جانے کیسے آج بھائی نے دیکھ لیا مجھے اس کے ساتھ بھائی کی آنکھوں میں خون آ گیا بھائی کو وہاں دیکھ کر میری دل کی دھڑکن تیز ہو گئی سانس نا ہموار ہونے لگی
کیونکہ میں جانتی تھی اس کا انجام بہت برا ہونے والا ہے اس سے پہلے کہ میں عمر کو وہاں سے بھگاتی بھائی تیزی سے میری طرف بڑھامجھے بازو سے گھسیٹتا ہوا گاڑی تک لے آیا اور ڈرائیور کو کہا کہ مجھے فورا گھر لے جایا جائے اور کمرے میں بند کر دیا جائے اس نے اپنے صاحب کے حکم کی بجا آوری کی میرے بھائی کے ساتھ اور بھی لوگ تھے جنہوں نے عمر کو گھیر رکھا تھا گھر تک سارے راستے میں میں ڈرائیور کی منتیں کرتی رہی ۔ کہ خدا کے لیے مجھے واپس لے چلولیکن وہ ٹس سے مس نہ ہوا آج مجھے میرے بھائی سمیت اس حویلی کا ہر شخص ظالم لگ رہا تھا ابھی مجھے گھنٹہ بھی نہیں ہوا تھا کہ میرا بھائی میرے سامنے تھا بہن کی خوشیوں کا محافظ آج بہن کی خوشیوں کا قتل کر کے آیا تھا میرا جی چاہا کہ میں دھاڑیں مار مار کر روؤں مگر میں بے بس یہ سب دیکھتی رہی ۔
عمر مجھ سے بہت ہی محبت کر تا تھا اور میں بھی اس سے بہت ہی زیادہ محبت کرتی تھی اور ہم بہت جلد ہی شادی کرنے والے تھے لیکن قدرت کو شاید کچھ اور ہی منظور تھا ۔ عمر کی زندگی کی ڈور کٹ چکی تھی اور میں نے وہی کیا اب میں سے پاس کچھ نہیں بچا تھا ۔ جس کی مجھے پرواہ ہوتی میں وہیں دروازے کے پاس زمین پر بیٹھ گئی اور زور زور سے رونے لگی میرا دماغ سن ہو چکا تھا اور وجود میں ذرا بھی حرکت نہیں تھی تقریبا دو کھنٹے روتے روتے گزر گئے پھر اچانک میرے سامنے دھند چھانے لگی تقریبا پانچ گھنٹوں بعد جب میری آنکھ کھلی تو میں اپنے کمرے کے بستر پر تھی میرے سامنے ایک ملازمہ پانی کا گلاس لیے کھڑی تھی مگر میرا دل اب ہر چیز سے عاری ہو چکا تھا ۔ ملازمہ نے میری طرف پانی کا گلاس بڑھایا مگر میری آنکھو میں بس عمر کا چہرہ بسا ہوا تھا اس گھر کی ہر چیز کو میں اپنے اوپر حرام سمجھ چکی تھی میں نے تیزی سے نوکرانی کے ہاتھ میں پکڑا گلاس ایک جھٹکے سے نیچے پھینک دیا اور پھر رونے لگی میرے آنسو اور میری بیخ و پکار میرے بس میں نہیں تھے ۔