ایک شخص نے اپنی بیوی سے دھو کہ کھایا اور دل برداشتہ ہوکر

ایک شخص نے اپنی بیوی سے سخت دلی تکلیف اٹھائی جو اس کے کچھ دل و دماغ پر چوٹ لگا گئی اور اسے اجتماعی طور پر عورت کے وجود سے نفرت ہو گئی ۔ وہ اپنے نومولود بیٹے کو لے کر آبادی سے دور جنگل میں لے گیا ، اور وہاں ایک کٹیا بنالی اور اپنے ساتھ قسم کھالی کہ میں اپنے بیٹے کو عورت کی شکل تک دیکھنے نہیں دونگا ۔

میں برس بیت گئے ، ایک دن اس کا بیٹا جنگل میں شکار کر رہا تھا ۔ کہ وہاں سے کچھ لڑکیوں کا قافلہ گزرا ، لڑکا انہیں مسلسل دیکھ رہا تھا کہ باپ نے اس کا بازو جھٹکتے ہوۓ کہا کہ چلو گھر چلتے ہیں ، جب بیٹے نے بہت پوچھا کہ وہ کون سی مخلوق تھی ۔ جو میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی ، تو باپ نے تنگ آکر اسے کہا کہ وہ کہ وہ دوسرے جنگل کا ایک جانور ہے جسے شتر مرغ کہتے ہیں ۔ رات ہوئی تو نوجوان بیٹا کروٹیں بدلنے لگا ، کبھی حچت کو دیکھے کبھی باہر جاۓ ، رات کے آخری پہر باپ نے تنگ آکر پوچھا کہ سوتے کیوں نہیں ہو ، کیا وجہ ہے ۔ میٹے نے آنکھیں جھکاتے ہوۓ جواب دیا کہ ابا مجھے وہ شتر مرغ چاہیے ۔

“ کہنے کا مقصد یہ کہ انسانی فطرت کو بدلہ نہیں جاسکتا ، فطری خواہشات فطرت کے اصولوں کے مطابق جنم لیتی ہیں ، انٹرنیٹ کے اس دور میں مر دعورت کے تعلقات قائم ہونے کیلئے سیکنڈز بھی زیادہ ہو سکتے ہیں ، ہم ذریعہ کو ختم نہیں کر سکتے ، لیکن دلوں میں پیداہونے والے خیالات کو آگہی ، منطقی تربیت اور پاک تبدیلی سے ضرور ختم کیا جاسکتا ہے ۔ پہاڑوں سے پچھلنے والی برف کا رخ دریاوں کی طرف نہ موڑا جاۓ تو فائدے کی بجائے نقصان ہو تا ہے ، بچہ کو کو ئلہ پڑنے سے پہلے ہم اس کی تربیت کرتے ہیں کہ وہ اسے نقصان پہنچاۓ گا ، مسلمانوں کا آج سب سے بڑا مسئلہ اپنی نوجوان نسل کے سامنے کھڑے ان کی ذہنی عمروں سے بڑے چیلنجز اور وقت کے تقاضوں کو نہ سمجھنا اور گھر یلو تربیت کا فقدان ہے ،

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *