صبح صبح پانے کی دکان پر میرا دوست میرے پاس بیٹھا مجھے سلام کیا اس کی آنکھوں میں آنسو تھے میرا ہاتھ پکڑا روتے ہوئے بولا فارس میں آج خود کو بہت چھوٹا محسوس کر رہا ہوں ۔
میں حیران تھا اس کی کمر یہ تھپکی دی ارے ایسا کیا ہوا گیا شیر کو ، وہ مجھ سے نظریں نہ ملا رہا تھا ۔ ۔
پھر زور زور سے رونے کا سب لوگ اس کی طرف دیکھنے لگے میں اس کو چپ کر وایا ارے پاگل سب دیکھ رہے ہیں میرے سینے سے لگ گیا ے روتے ہوئے بولا ، فارس بہنیں ایسی کیوں ہوتی ہیں ؟
میں سوچ میں کم کیا ہو گیا تم کو ایسا کیوں بول رہے ہو کہنے لگا ، فارس پتا ہے ؟
بہن کی شادی کو 6 سال ہو گئے ہیں ، میں کبھی اس کے گھر نہیں گیا عید شب رات کبھی بھی میں ابو یا امی جاتے ہیں ، میری بیوی ایک دن مجھے کہنے لگی ، .
آپ کی بہن جب بھی آتی ہے اس کے بچے گھر کا مال بگاڑ کر رکھ دیتے ہیں ، خرچ ڈبل ہو جاتا ہے اور تمہاری ماں ہم سے چھپ چھپا کر کبھی اس کو صابن کی پیٹی دیتی ہے کبھی کپڑے کبھی صرف کے ا ڈبے اور کبھی کبھی تو بادل کا تھیلا بھر دیتی ہے ۔
اپنی ماں کو بولو یہ بھارا گھر ہے کوئی خیرات سینٹر نہیں فارس مجھے بہت غصہ آیا میں مشکل سے خرچ پورا کر رہاہوں اور ماں سب کچھ بہن کو دے دیتی ہے ۔
بہن ایک دن گھر آئی ہوئی تھی اس کے بیٹے نے ٹی وی کاریوٹ توڑ دیا ، میں ماں سے غصے میں کہہ رہا تھاماں بہن کو بولو یہاں عید پر آیا کرے بس اور یہ جو آپ صابن صرف اور چاول کا تھیلا بھر کر دیتی ہیں نا اس کو بند کریں
ماں چپ رہی ، لیکن بہن نے ساری باتیں سن لی تھیں میری بہن کچھ نہ بولی ، 4 بج رہے تھے اپنے بچوں کو تیار کیا اور کہنے لگی بھائی مجھے بس سٹاپ تک چھوڑ آؤ ،
میں نے جھوٹے منہ کھارہ لیتی کچھ دن لیکن وہ مسکرائی نہیں بھائی بچوں کی چھٹیاں ختم ہونے والی ہیں ۔
پھر جب ہم دونوں بھائیوں میں زمین کا بٹوارا ہو رہا تھا تو میں نے صاف انکار کیا بھائی میں اپنی زمیں سے بہن کو حصہ نہیں دوں گا
بہن سامنے بیٹھی تھی وہ خاموش تھی کچھ نہ بولی ماں نے کہا بیٹی کا بھی حق بنتا ہے لیکن میں نے کالی دے کر کہا کچھ بھی ہو جائے میں بہن کو حصہ نہیں دوں گا ۔
میری بیوی بھی بہن کو برابھلا کہنے لگی وہ بیچاری خاموش تھی کور ناکے دن ہیں فارس کام کاج ہے نہیں میرے بڑے بیٹے کوئی بی ہو گئی میرے پاس اس کا علاج کروانے کے لیے نہیں بہت پریشان تھا ۔
میں نے قرض بھی لے لیا تھالا کھ دو بھوک سریہ تھی میں بہت پریشان تھا کمرے میں اکیلا بیٹھا تھاشاید رو رہا تھاحالات پر کے اتنے میں بہن گھر آگئی میں غصے سے بولا اب یہ آگئی ہے منحوس ،
بیوی میرے پاس آئی ، کوئی ضرورت نہیں گوشت یا بریانی پکانے کی اس کے لیے پھر ایک گھنٹے بعد وہ میرے پاس آئی ، ،
بھائی پریشان ہو میں مسکر ایا نہیں تو بہن نے میرے سر پہ ہاتھ پھیر ابڑی بہن ہوں تمہاری گود میں کھیلتے رہے ہو ،
اب دیکھو مجھ سے بھی بڑے لگتے ہو پھر میرے قریب ہوئی اپنے پرس سے سونے کے کنگن نکالے میرے ہاتھ میں رکھے آہستہ سے بولی ،
پاگل توں اویں پریشان ہو تاہے تیرا بھائی شہر گیا ہوا تھا بچے سکول تھے میں سوچا دوڑتے دوڑتے بھائی سے مل آؤں یہ کنگن بیچ کر اپنا خرچہ کر بیٹے کا علاج کر وا ،
اور جاٹھ نائی کی دکان پہ جاداڑھی بڑھار کھی ہے شکل تو دیکھ ذرا کیا حالت بنار کبھی تم نے میں خاموش تھان کی طرف دیکھے جارہا تھا وہ آہستہ سے بولی کسی کو نہ بتانانگن کے بارے میں تم کو میری قسم ہے ، _
میرے ماتھے پہ بوسہ کیا اور ایک ہزار روپیہ مجھے دیا جو سو پچاس کے نوٹ تھے شاید اس کی جمع پونجی تھی میری جیب میں ڈال کر بولی بچوں کو گوشت لا دینا پریشان نہ ہوا کر ،
تیرے بھائی کو تنخواہ ملے گی تو آوں کی پھر جلدی سے اپنا ہاتھ میرے سر پہ رکھا دیکہ اس نے بال سفید ہو گئے اب بازار جہاد اور داڑھی کو ٹھیک کر آو وہ جلدی سے جانے لگی اس کے پیروں کی طرف میں دیکھاٹوٹی ہوئی ہوتی پہنی تھی
پر انا سادو پٹہ اوڑھا ہوا تھاجب بھی آتی تھی وہی دوپٹہ اوڑھ کر آتی فارس بہن کی اس محبت میں مر گیا تھاہم بھائی کتنے مطلب پرست ہوتے ہیں ں ہنوں کو پل بھر میں بیگانہ کر دیتے ہیں ۔
اور بہنیں بھائیوں کا ڈرا ساد کھ برداشت نہیں کر سکتی وہ ہاتھ میں کنگن پکڑے زور زور سے رو رہا تھا اس کے ساتھ میری آنکھیں بھی نم تھی ،
اپنے گھر میں خدا جانے کتنے دکھ سہ رہی ہوتی ہیں کچھ لمحے بہنوں کے پاس بیٹھ کر حال پوچھ لیا کریں شاید کے ان کے چہرے پہ کچھ لمحوں کے لیے ایک سکون آجائے ،
دوستو یہ کہانی سناتے سناتے اللہ کی قم میرے آنکھوں میں آنسو آگئے ۔ بہت دکھ بھری داستان ہے ،